ڈاکٹر اشفاق احمد ورک ۔۔۔ ہمارا جسم بھی ہم سے رہائی چاہتا ہے

ہمارا جسم بھی ہم سے رہائی چاہتا ہے
نمودِ خاک ہے لیکن خدائی چاہتا ہے

اسیرِ نفس ہے کوئی کہ خواہشوں کا غلام
ہر ایک شخص یہاں پارسائی چاہتا ہے

مکانِ جسم پہ اِس دل کی دستکیں بھی سنو
خوشی سے رقص میں ہے یا رہائی چاہتا ہے

یہ میرا دل تو مِرے پاؤں پڑ گیا کل شام
یہ مجھ سے بڑھ کے تِرے ہاں رسائی چاہتا ہے

ہے مختصر کہ مِرا دل اُداس رہتا ہے
وفا کے قحط میں یہ دل رُبائی چاہتا ہے

Related posts

Leave a Comment