ہمایوں پرویز شاہد ۔۔۔ عداوتوں سے محبت کشید کرتا ہوں

عداوتوں سے محبت کشید کرتا ہوں
میں بے حسوں سے مروت کشید کرتا ہوں

جو زہر ہوتا ہے تریاق میرے زخموں کا
بدن سے حسبِ ضرورت کشید کرتا ہوں

مرے ہنر کی مجھے داد دیجیے صاحب
اُداسیوں سے مسرت کشید کرتا ہوں

گلہ یہ کرتی ہے مجھ سے نصیب کی دیوی
میں خواہشوں سے حقیقت کشید کرتا ہوں

زمانے والے جو الفاظ ترک کرتے ہیں
میں اُن سے شعر کی لذت کشید کرتا ہوں

تمھاری یاد کو تیشہ بنا کے جانِ وفا
ہجومِ رنج سے فرصت کشید کرتا ہوں

ستم کی راہ میں دیوار ہوں سدا شاہد
میں پتھروں سے نزاکت کشید کرتا ہوں

Related posts

Leave a Comment