بوجھ جب مفلس و نادار پہ آ جاتے ہیں
زلزلے شاہوں کے دربار پہ آ جاتے ہیں
مرحلے آخری جب پیار پہ آ جاتے ہیں
فیصلے باپ کی دستار پہ آ جاتے ہیں
نامہ لکھ کر اُسے بھجوانے کی خواہش جو کروں
سب کبوتر میری دیوار پہ آ جاتے ہیں
تو جو شرماتا ہے اظہارِ محبت سُن کر
رنگ سارے تیرے رخسار پہ آ جاتے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ ہر شاخ ثمربار ہوئی
جب پرندے کبھی اشجار پہ آ جاتے ہیں
اپنے شجرے میں تو ظالم کی اطاعت ہی نہیں
ہم اُٹھائے ہوئے سر، دار پہ آ جاتے ہیں
لوگ سیلاب میں بڑھتے ہیں کناروں کی طرف
اور ہم سر پھرے منجدھار پہ آ جاتے ہیں
بیچ دی جاتی ہے جب اپنے قلم کی حرمت
جھوٹ سب مُلک کے اخبار پہ آ جاتے ہیں
مکڑیاں جھوٹ کی بُنتی ہیں جو دنیا میں عقیل
وُہی جالے سبھی کردار پہ آ جاتے ہیں