رشید آفرین ۔۔۔ آسماں کی اُدھر جفا دیکھیں

آسماں کی اُدھر جفا دیکھیں
میں زمیں ہوں مری وفا دیکھیں

لڑ رہا ہوں بھنّور سے اَب تنہا
میری ہمت بھی ناخدا دیکھیں

یہ مقّدر ہے عشق والوں کا
جور ہر حال میں روا دیکھیں

خاک کا اِک حقیر ذرہ ہوں
ابتدا میری انتہا دیکھیں

بال و پر والے سب ہی اُڑتے ہی
ہو کے بے بال و پر اُڑا دیکھیں

مٹ گیا ہے وہ راہِ الفت میں
کیا ملا ہے اُسے صلہ دیکھیں

جس کے چرچے ہیں چارسو جگ میں
ہے یہ زندہ یا مَر گیا دیکھیں

جو صدا سن لیں ڈوبتے دل کی
موت کا لب پہ ذائقہ دیکھیں

روز مرَ مَر کے ہی وہ جیتے ہیں
حسن والوں کی جو ادا دیکھیں

سچ کی خاطر جو دار پر جھولیں
حوصلے اُن کے باخدا دیکھیں

زندہ رہنا نہ موت ہی بس میں
زندگانی کا ماجرا دیکھیں

جِن کے بس میں سکونِ عامہ ہے
اُن کا قد سب سے ہی بڑا دیکھیں

اُس نے اوڑھا ہے زندگانی کو
آفریں کی بھی یہ خطا دیکھیں

Related posts

Leave a Comment