یعقوب پرواز ۔۔۔ پرائی چال چلنے کے سوا کچھ بھی نہ ہاتھ آیا

پرائی چال چلنے کے سوا کچھ بھی نہ ہاتھ آیا
کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ بھی نہ ہاتھ آیا

کوئی پہچان ہی باقی نہیں اُس کی زمانے میں
اُسے چہرے بدلنے کے سوا کچھ بھی نہ ہاتھ آیا

گہر ہائے گرانمایہ سے یوں ہی ہاتھ دھو بیٹھا
سمندر کو اچھلنے کے سوا کچھ بھی نہ ہاتھ آیا

اُسے جو بھی ملا، اُس کی توقع سے زیادہ تھا
مگر ہم کو بہلنے کے سوا کچھ بھی نہ ہاتھ آیا

ہمیں اس قافلے کی گرد سے بھی بچ کے چلنا ہے
جیسے پرواز جلنے کے سوا کچھ بھی نہ ہاتھ آیا

Related posts

Leave a Comment