الیاس بابر اعوان … مسجد کا سی سی ٹی وی کیمرا

مسجد کا سی سی ٹی وی کیمرا
……………………….
سب کی بولی لگی
کچھ کا ماتم ہوا
باقی اخبارکی سرخیوں میں ڈھلے
شام تک رونق اَفروز لفظوں سے باسی حوالہ بنے
کچھ مورخ کے ہاتھوں کی عجلت سے مرکز سے کچھ دُور
خستہ کتابوں کے نم آشنا حاشیوں کے مسافر بنے

ان میں کچھ تھے جنہیں بابِ اَرزاں سے ناحق پکارا گیا
نرم بستر کی حدت سے ہیرہ مزاج اٹھ کے بے سمت دوڑے گئے
دُور تک ان کے پیروں کی دھول آئنوں کی درخشاں
روایت بنی

سبز پیڑوں کے تازہ تنوں پر
اِنہیں میں سے کچھ اپنے اشعار کندہ کیے جارہے تھے
کہ معلوم رستوں کی کہنہ روایت میں ناپید ہوتے گئے

کچھ کے سینوں پہ ستواں تحرک کا زنگار تھا
ان کے ڈھلکی ہوئی گردنوں اور خمیدہ سروں پر
نہاں آستینوں کے سانپوں کا بازار تھا
باقی جو تھے
وہ آزردہ خاطر سے تھے
زندگی کی حرارت سے نا آشنا
پتھروں کے تعلق میں عمرِ رواں کاٹ کر
ایک بوسیدگی میں ڈھلے
کچھ مسافر جنہیں
خام لہجوں کی رومانویت نے ٹکڑوں میں بانٹے رکھا
اُن کا کیا تذکرہ!

مجھ کو روشن جبینوں پہ بے رحم لہریں دِکھیں
اونچے لمبے جوانوں کے جسموں کی تسبیح کھلتی گئی
ایک اک کرکے صحرا کے تپتے دلاسوں کا محور بنے
سُرخ اونٹوں کی لمبی قطاریں بنیں
اُن کی ڈھلکی کہانوں پہ ریشمبردے بچھے
ساربانوں نے لہریلے صحرا پہ سیدھی صفیں کھینچ لیں
اک طرف سے اقامت کا پردہ کھلا
رات کی نرم مٹھی سے موتی گرے
کچھ کے سینوں پر دجلہ امڈتا گیا
کچھ کی پلکوں سے موتی برستے گئے
آسماں پر ستاروں کے گیسو کھلے

جن سے شبنم گری
ایسی شبنم کہ پیشانیاں دُھل گئیں

جن سے پہچان میں آگئی روشنی
شہرِ افتادگاں پر زمانوں کے اَسرار کھلتے گئے

اوراک ساعتِ ناگہاں رینگتی رینگتی
جانے کس کس زمانے کی وحشت اٹھائے ہوئے
بے تیمم یہاں آگئی
اُس کی نیّت بندھی، ساحرہ کے ترنم کے تسمے کھلے
اک اُجالا ہوا جس پہ حاوی تھا اک شورِ نامہرباں
اور وحشت کے سوکھے لبوں سے شرارہ بہا
جس نے جسموں کی مٹی کو گوندھا
اُسے چاک پرلاکے دَم پر رکھا
چوڑے شانوں پہ اونچے سروں کی مچانوں تلک
بُوئے خوں آگئی
دشت کے لہر در لہر ذروں پہ سجدے تڑپتے رہے
وقت کے پھیر میں نرخروں سے عدم کے بلاووں پہ نُور آگیا
دیکھیے ایک انسان مرکز سے چلتا ہُوا کتنی دُور آگیا
………………………..

Related posts

Leave a Comment