رخشندہ نوید ۔۔۔ نامیہ کے لیے

لگانا پڑتا نہیں تل کوئی بھی گال کے ساتھ
خدا نے خلق کیا ہے تجھے جمال کے ساتھ

زمین ناچ اُٹھے اورستارے رقص کریں
قدم اُٹھا کے تُو چلتی ہے سُر کے تال کے ساتھ

ترے خرام سے ہر مورنی نے سیکھا ہے
کہ کیسے گھنگھرو چھنکتے رہیں گے چال کے ساتھ

تو میری آنکھ کا سب سے حسیں نظارہ ہے
دکھائی دیتی ہے مجھکو گلوں کے جال کے ساتھ

اے مری راجکماری مری فرشتہ صفت
غرض تجھے ہے جواہر سے اور نہ مال کے ساتھ

میں تجھ سے آنکھ ہٹائوں تو پھر پلٹتی ہے
میں دیکھتی ہوں تجھے خود بھی احتمال کے ساتھ

تو اپنے دل کی کہانی عیاں نہیں کرتی
سجا کے رکھتی ہے کانٹوں کو اپنی ڈال کے ساتھ

نہ جانے کون سی مٹی سے تُو بنی ہوئی ہے
حیات اپنی بسر کرتی ہے کمال کے ساتھ

مہکتے پھولوں سی کومل تو حد سے نازک ہے
ہوا تو اس کی طرف دیکھنا خیال کے ساتھ

تو نظرِ بد سے بچے تجھ سے ہوں بلائیں دور
نشاط اور فزوں تر ہو ماہ و سال کے ساتھ

اب ایسے گوہرِ نایاب ہو چکے ناپید!!
ذرا سنبھال کے اے وقت دیکھ بھال کے ساتھ

محبتوں کا سماں چاہتوں کا ابرِ رواں
یہ سب عنایتیں ہوتی ہیں خال خال کے ساتھ

Related posts

Leave a Comment