عنبرین صلاح الدین ۔۔۔ مِحرم

مِحرم
۔۔۔۔۔
عورتوں سےبهرا صحن ہے
بین کرتی ہوئی عورتیں
دھوپ کی زرد چادر ہے اور چھت کو جاتی ہوئی سیڑھیوں کے اُکھڑتے کنارے پہ اٹکا ہوا دن
پھسلتی ہوئی دھوپ دیوار پر،
سبز بیلوں میں اُلجھی ہوئی بیل جیسے کوئی
اور دیوار کے ساتھ کرسی پہ بیٹھی ہوئی
سب کے پُرسوں کی محور  ۔۔۔
اُدھر صحن کے بیچ میں کچھ قدم پر پڑا، اُس کی آدھی صدی کی رفاقت کا پورا بدن
دھوپ کی بیل بیلوں کے ہاتھوں سے جیسے نکلتی چلی جا رہی ہے
یہ بیلیں ، یہ گھر، صحن ، دیوارو در
جیسے اُس کے نہیں،
جیسے کچھ بھی نہیں ۔۔۔
"جانے کیسے قناتیں لگاتے ہیں
بیلیں اُکھڑنے لگیں، رسیاں کھنچ گئیں
کون پھولوں کی کیاری میں یہ کرسیاں رکھ گیا”
عورتوں سے بھرے صحن میں لااِلہ کی صدا
چادروں سے ڈھکے سرمسلسل کسی بے خیالی کے جھولے میں ہلکورے کھاتے ہیں
وہ دیکھتی ہے کہ سب ہی اُسے دیکھتی ہیں
یہ سب اُس کی اپنی ہیں جو اُس کی بستی سے اور ساتھ کی بستیوں سے،
دوپٹوں کے پلو میں پرسوں کی گِرہیں لگائے چلی آئی ہیں،
دیکھنے کے لیے
اُس کی آدھی صدی کی رفاقت کے پورے بدن کا وہ چہرہ،
جسے آج وہ دیکھ سکتی نہیں
جسے صرف وہ دیکھ سکتی نہیں

Related posts

Leave a Comment