واجد امیر ۔۔۔ جنگِ آزادی یا غدر

جنگِ آزادی یا غدر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدا میرٹھ سے اُٹّھی تھی
جہاں کے سرفروشوں نے
یہاں کے غاصبوں اور تاجروں کے بھیس میں آئے درندوں ، کالے کوسوں ، اجنبی دیسوں سے گور ی چمڑی والے ، بے نسب ، مجہول اور مغرور، اکڑی گردنوں والوں کے آگے اِک خطِ انکار کھینچا تھا
ہوا میرٹھ سے اُٹّھی تھی
کہ جس نے حبس موسم ، بے ثمر لمحوں ، سُلگتی ٹوٹتی، بکھری ہوئی سانسوں کی اک ڈوری میں باندھاتھا
صدا ہر دل سے اُٹھی تھی
تو پھر منگل نے اک ٹوٹی ہوئی لاٹھی اُٹھائی تھی
تبھی حضرت محل نے اوڑھنی پرچم بنائی تھی
اُٹھا کر بخت خاں ٹوٹی ہوئی تلوار لایا تھا
شکست وفتح ایسے میں کوئی معنی نہیں رکھتے
معلق روشنی کے جسم ، پھندے ، پھانسیاں ، ویران گھر،اُجڑے نگر
سُنسان گلیاں ، سسکیاں ، آہیں ، خموشی، اور برسوں کی غلامی
اور اِک دن پھر درِ امکان کھلتا ہے
دُعا مقبول ہوتی ہے صدا ہر دل سے اُٹھتی ہے

Related posts

Leave a Comment