بدر منیر ۔۔۔ ہاتھ سے پل بھر میں صیدِ بے زباں جاتا رہا

ہاتھ سے پل بھر میں صیدِ بے زباں جاتا رہا
سوچتی ہے اہلیہ شوہر کہاں جاتا رہا؟

روزنِ در سے نظر آیا جو مہمانوں کا غول
پچھلے دروازے سے چھپ کر میزباں جاتا رہا

بن کے دلہن اس حسیں نے جب سے رکھا ہے قدم
آشیانے سے مرے امن و اماں جاتا رہا

بن بھی سکتا ہے کسی دن تیرے پٹنے کا سبب
تو اسی رفتار سے گر اس کے ہاں جاتا رہا

گفتگو اس نے سنی جب روز مرہ کے خلاف
اہلیہ کو چھوڑ کے اہلِ زباں جاتا رہا

فون پر جب اس نے مجھ سے کھلکھلا کر بات کی
دل کے اندر تھا جو احساسِ گراں جاتا رہا

ریڈ کر کے جو برآمد کر لیا پولیس نے
بعد میں اس مال کا نام و نشاں جاتا رہا

Related posts

Leave a Comment