عطاء الحق قاسمی ۔۔۔ ناصر زیدی (خاکہ)

ناصر زیدی

یہ غالباً ۱۹۵۳ء کی بات ہے جب میں اپنے خاندان کے ہمراہ وزیر آباد سے’’ہجرت‘‘ کر کے لاہور کی سب سے خوب صورت بستی ماڈل ٹائون میں آکر آباد ہوا اور یہاں ماڈل ہائی سکول میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا۔ یہ سکول سی بلاک کے سٹاپ کے سامنے ممتاز صحافی م ش کی کوٹھی میں واقع تھا۔ میری رہایش اے بلاک میں تھی۔ میں دھاری دار پاجامہ اور اسی قسم کی کوئی قمیص پہنے بستہ گلے میں لٹکائے، تختی ہوا میں لہراتے سایہ دار درختوں اور مہکتے باغوں میں سے ہوتا ہوا سکول پہنچتا تو دروازے پر ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر مقبول قریشی ہاتھ میں بید لیے دیر سے سکول پہنچنے والے طالبِ علموں کے’’ سواگت ‘‘ کے لیے کھڑے ہوتے۔ مقبول قریشی بہت باوقارشخصیت کے مالک تھے اور طلبہ سے بہت پیار کرتے تھے لیکن ان دنوں والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کو لُقمہ سونے کا دیتے تھے اور دیکھتے شیر کی آنکھ سے تھے ۔ اس وقت تک بچوں کی نفسیات پرلندن میں شائع ہونے والی وہ کتابیں غالباً ہمارے خطے تک نہیں پہنچی تھیں جن میں سب سے بڑے ماہرِ نفسیات جناب’’مولا بخش‘‘ کی افادیت سے مکمل طور پر انکار کیا گیا چناں چہ ان دنوں ہمارے تعلیمی نظام میں’’ڈنڈا پیر اے وگڑیا تگڑیاں دا‘‘ والے مقولے کی افادیت کے پیشِ نظر اساتذہ کرام ہاتھ میں’’مولا بخش‘‘ ضرور رکھتے تھے اور بوقت ِ ضرورت اس کا بھرپور استعمال بھی کرتے تھے۔اس ضمن میں سکول کے جن دیگر اساتذہ سے میں نے’کسبِ فیض‘ کیا ان میں ماسٹر محمد دین، ماسٹر قرشی صاحب، ماسٹر تاباں صاحب اور ماسٹر خدا بخش صاحب خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ پنجابی کے معوف شاعر راشد حسن رانا کے والد ِ محترم او ر اپنے وقت کے جانے پہچانے شاعر جناب حسن بخت بھی ماڈل ہائی سکول ہی میں متعین تھے لیکن میں خوش قسمتی سے ان کی کلاس میں نہیں تھا۔ ان کی کلاس کو طلبہ نے’’پھانسی گھر‘‘ کا نام دے رکھاتھا۔ دراصل جس کلاس میں’’کھڑکنے‘‘ ایسے طالبِ علم ہوں جو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مار کھانے کے بعد ہانپتے ہوئے ماسٹر سے کہیں’’ماسٹر صاحب آپ تھوڑی دیر آرام کر لیں تھک گئے ہوں گے، میں یہیں ہوں، آپ گبھرائیں نہیں‘‘ وہاں ماسٹر صاحب کے دل پر کیا بیتتی ہوگی؟
اس سکول اور اسی فضا میں میری ملاقات اپنے ایک کلاس فیلو سے ہوئی۔ ہم دونوں کی عمر یہی کوئی دس گیارہ سال ہوگی، یوں توکلاس میں اور بھی بہت سے لڑکے تھے لیکن جس کے ساتھ میری گاڑھی چھننا شروع ہوئی وہ یہی گوراچِٹا اور گول مٹول سا بچہ تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ہم دونوں بزمِ ادب کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے اور ایک دوسرے کو اُلٹے سیدھے شعر سُناتے رہتے جن میں سے اکثر ہم نے خود گھڑے ہوتے۔ نویں جماعت میں اپنے’’ذوقِ موسیقی‘‘ کی وجہ سے میں سکول بینڈ کارُکن بھی بن گیاچناں چہ صبح’’اسمبلی‘‘ کے دوران اپنے جثّے سے بڑا ایک ڈھول گلے میں ڈالے جوشیلی دُھنیں فضاء میں بکھیرا کرتا میرا یہ دوست اس’’نعمت‘‘ سے محروم تھا البتہ آٹھویں نویں جماعت میں ہم دونوں شعر گوئی کی طرف باقاعدہ مائل ہوئے صرف مائل نہیں ہوئے بلکہ خود کو باقاعدہ شاعر سمجھنا شروع کر دیا۔
بالکل اسی طرح جس طرح آج بھی ہم دونوں خود کو شاعر سمجھتے ہیں اور میرے خیال میں اب وہ وقت آگیا ہے جب میں آپ کو اپنے اس دوست کا نام بتادوں، اس کا نام ناصر زیدی ہے مگر ان دنوں یہ سیّد ناصر رضا عشرت زیدی کہلاتا تھا جب کہ میں’’عطاء الحق قاسمی پیرزادہ‘‘ تھا۔ ناصر زیدی اس وقت ملک کا معروف شاعر ہے۔ ہمارے فارسی کے عالم فاضل اُستاد ماسٹر تاباں سردیوں میں سکول کے لان میں کلاس لیتے ہم گھاس پر بیٹھ جاتے اور وہ ہاتھ میں مولا بخش لیے پان چباتے۔ اکثر یہ پیش گوئی کرتے’’میری بات لکھ لو تم گنڈیریاں بیچو گے‘‘ ان کی پیش گوئی کم از کم ناصر زیدی کے بارے میں درُست ثابت نہیں ہوئی کیوں کہ ناصر گنڈیریاں نہیں بیچتا ،اپنی نظمیں غزلیں معاوضہ دینے والے سرکاری پرچوں، ریڈیو اور ٹی وی کے پاس بیچتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گنڈیریوں کی قیمت پر بیچتا ہے۔ ہمارے ہاں ادب اسی قیمت پر بکتا ہے۔
میرا بہت جی چاہتا ہے کہ میں اپنے اس دور کے اساتذہ کی تصویر کشی کروں۔ آپ کو مشہور افسانہ نگار ذکاء الرحمٰن کے بارے میں بھی بتائوں جو ماڈل ہائی سکول میں ہم سے دوجماعتیں آگے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سی باتیں آپ کو بتانے والی ہیں۔
لیکن میں یہ انتہائی دلچسپ حکایت کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتا ہوں کیوں کہ آج میرا جی صرف ناصر زیدی کے بارے میں باتیں کرنے کو چاہتا ہے جس کے ساتھ تعلق کو قریباً چالیس برس ہوگئے ہیں اور یوں وہ ادبی حلقوں میں میرا سب سے’’کرانک‘‘ دوست ہے۔ میں اس وقت ناصر زیدی کا خاکہ اُڑانے کے موڈ میں بھی نہیں ہوں کیوں کہ مجھے تو یہ آپ کو بتانا ہے کہ میرے سیلف میڈ دوست نے بہت کٹھن زندگی گزاری ہے ۔ یہ ان چند ادیبوں میں سے ہے جنھوں نے ایک طویل عرصے تک اپنی روزی ادب سے کمائی اس خوددار شخص نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔زندگی بھر محنت کی اور اپنی سفید پوشی کو برقرا ر رکھا۔ شاعری کے علاوہ ناصر زیدی اب تحقیق کے کُوچے کی طرف بھی آیا ہے۔ وہ بسا اوقات بہت دل چسپ حقائق ڈھونڈ کر لاتا ہے بلکہ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ ان دنوں اسی ٹوہ میں رہتا ہے ۔ اس کے پاس پرانے رسائل و جراید اور اخبارات کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ وہ کباڑیوں کی دُکانوں پر بھی اکثر نظر آتا ہے، تاہم یہاں وہ کسی معروف ادیب کی تازہ کتاب کی تلاش میں ہوتا ہے جو اشاعت کے چند دنوں بعد فٹ پاتھ پر پہنچ گئی ہو اور وہ اکثر اپنی اس تلاش میں کامیاب رہتا ہے۔ اس کامیابی کے بعد ناصروہ کتاب ادیب کی خدمت میں بہ صد احترام پیش کرتا ہے کہ’’حضور! کتاب کی مقبولیت کی وجہ سے آپ کے لیے تو سب دوستوں کو کتاب پیش کرنا ممکن نہیں تھا البتہ مجھے خوش قسمتی سے یہ کتاب فٹ پاتھ پر پڑی مل گئی ہے، آپ دستخط کر دیجیے‘‘۔ ناصر زیدی تحقیق کے شوق کے ساتھ چائے کا بے حد شوقین ہے، یہ وہ چیز ہے جو ناصر کی کمزوری ہے۔ وہ نہ سگریٹ پیتا ہے اور نہ اسے مے نوشی سے کوئی رغبت ہے۔ وہ صرف چائے کا رسیا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو چائے پلائے بغیر یا آپ سے چائے پیے بغیر آپ کو اُٹھنے دے۔
وہ ہر دوصورتوں میں خوش ہوتا ہے لیکن اظہر جاوید کی طرح جب یہ اپنے ’’اڈے‘‘ پر بیٹھا ہو، اس وقت وہ کسی اور کو بِل نہیں دینے دیتا اور وہ یہ وضع داری اس وقت سے نبھا رہا ہے، جب سے میں اسے اپنے پائوں پر کھڑا دیکھ رہا ہوں بلکہ اس وقت سے جب وہ رزقِ حلال کے لیے ایک پائوں پر کھڑے رہنے میں بھی راحت محسو س کرتا تھا۔
ناصر زیدی کُھل کر ہنسنے کا’’شوقین‘‘ ہے۔ ایک دفعہ اپنے لمبے بالوں کے ساتھ حجام کی دکان پر گیا اور شکایت کی کہ تم نے پچھلی مرتبہ میرے بال صحیح نہیں کاٹے۔ اس نے کہا’’جناب یہ ممکن نہیں کیوں کہ مجھے تو دُکان قائم کیے ابھی صرف دو سال ہوئے ہیں‘‘ یہ سُن کر ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ دوستوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا بھی ہے اور ان کی جوابی چھیڑ چھاڑ برداشت بھی کرتاہے۔ مجھے وہ’’مولوی‘‘ کہتا ہے اور اس’’مولوی‘‘ کے ساتھ وہ ایک لاحقہ بھی استعمال کرتا ہے، جسے ضبطِ تحریر میں لانے سے تحریر ضبط ہو سکتی ہے ۔ وہ سارا سال اخباروں میں مولویوں کے حوالے سے شائع ہونے و الی بُری بُری خبروں کے تراشے جمع کرتا رہتا ہے اور سال کے آخر میں مجھے ارسال کر دیتا ہے اور ساتھ لکھا ہوتا ہے’’اومولوی ۔۔۔پڑھ لے‘‘ میں اس کا جواب بوقت ِ ملاقات زُبانی بلکہ’’منہ زُبانی‘‘ عرض کرتا ہوں جس پر ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگتاہے۔
ناصر زیدی کو عام شاعروں کی طرح شعر سُنانے کی ’’علت‘‘ نہیں بلکہ وہ آپ سے شعر سُنتا بھی نہیں ہے۔ اس کے بجائے وہ کاغذ آپ کے ہاتھ سے لے لیتا ہے اور جیب سے قلم نکال کر رضا کارانہ طور پر مصرعوں پر اصلاح دینے لگتا ہے اوریوں ملک بھر میں ہزاروں کی تعدادمیں اس کے’’شاگرد‘‘ موجود ہیں بلکہ میرے خیال میں فیض اور ندیم کو چھوڑ کر آج کے ان سبھی شاعروں کو یہ اعزازحاصل ہے جنھوں نے ناصر کے سامنے کبھی جیب سے غزل نکالی ہو۔
اور اس مختصر سی تحریر کے آخر میں اس تحریر کے’’نزول‘‘ کا پس منظر بھی مجھے آپ کوبتانا ہے ۔ گزشتہ ہفتے ہری پور کے مشاعرے میں ناصر سے میری ملاقات ہوئی تو میرے سامنے ماڈل ہائی سکول کا چھٹی جماعت کا گول مٹول سا بچہ’’سیّد ناصر رضا عشرت زیدی‘‘ نہیں بلکہ ملک کا معروف شاعر’’ناصر زیدی‘‘ کھڑا تھا، جس کا جسم پھیل چکا ہے، بال سفید ہوچکے ہیں اور عمر ڈھل رہی ہے ۔ میں نے خود پر نظر ڈالی تو خود کو بھی عمر کی اسی دہلیز پر کھڑا پایا۔ میں نے سوچا ہم دونوں نے رفاقت کا کتنا لمبا’’پینڈا‘‘ طے کیا ہے ۔ میرا اتنا پرانا دوست تو اور کوئی بھی نہیں ہے تو میں کیوں نہ اسی دوستی کی تقریباً’’گولڈن جوبلی‘‘ اپنی یادوں کے حوالے سے منائوں؟ سو میں نے قلم اُٹھایا اور اپنی یادوں کی ایک ہلکی سی جھلک آپ کے سامنے پیش کر دی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(’’مزید گنجے فرشتے‘‘ عطاء الحق قاسمی)

Related posts

Leave a Comment