ارشد نعیم ۔۔۔ منچندا بانی __ ایک گم شدہ خواب کا مغنی

منچندا بانی— ایک گم شدہ خواب کا مغنی

منچندا بانی نے آنکھ کھولی تو ایک ہزار سال کے تجربات سے تشکیل پانے والی ہند اسلامی تہذیب ایک حادثے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہندوستان آزادی کی تحریک کا مرکز بنا ہوا تھا اور ہندوستان کی تقسیم آخری مراحل تک تھی اور ایک ایسی ہجرت کے سائے دو قوموں کے سر پر منڈلا رہے تھے جو لہو کی ایک ایسی لکیر چھوڑ جانے والی تھی جسے صدیوں تک مٹانا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ احساس، یہ منڈلاتا ہوا خطرہ ہمیں بانی کے ہاں آغاز ہی سے دکھائی دیتا ہے مگر اس کی شاعری ہمیں بتاتی ہے کہ اس نے تہذیبی اکائیووں کی اس ٹوٹ پھوٹ سے اثر قبول نہیں کیا جو تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں معرضِ موجود میں آئی۔ بل کہ اس نے اردو غزل کے تہذیبی پس منظر کو اس کے اصل حسن کے ساتھ قبول کیا ہے مگر اس المیے کو اس تہذیب کا حصہ بنا دیا ہے جس سے ہم ۱۹۴۷ء کے فسادات میں گزرے ہیں۔ بانی نے اپنا رشتہ غزل کی عجمی روایت کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس کی روحانی اقدار کو آگے بڑھانے کا کام کیا ہے۔ اس کی غزل کا اسلوب ، لفظیات اور عروضی نظام ہماری کلاسیکی غزل سے مستعار ہوتے ہوئے جدید حیثیت سے آشنا ہوا ہے۔انھوں نے غزل کے موضوعات کو جس طرح سے برتا ہے یا جس طرح سے اسے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے وہ اس کے معاصر اور پیش روئوں کے فن سے یک سر مختلف ہے۔ بالخصوص ایک ایسا شاعر جو ۱۹۴۹ ء کے قریب شعری سفر کا آغاز کرتا ہے، اس کا اپنے سینئرز( اصغر گونڈوی، یاس یگانہ چنگیزی، اختر شیرانی، فراق گورکھپوری) کے اسلوب سے یک سر بچ نکلنا اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ اس کے معاصرین میں ناصر کاظمی ، سلیم احمد، ظفر اقبال، شکیب جلالی جیسے شعرا بھی اسے فکری و فنی سطح پر اپنے حصارِ میں نہیں لے سکے۔ یہی انفرادی زاویہ ہمیں بانی کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے کہ اس نے ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کی تحریک سے بھی اثرات قبول نہیں کیے بل کہ غزل کی ایک ایسی روایت کوجذب کیا جس کے دامن میں شخصی احساسات آشوبِ عصر کے راستے سے تخلیقی اظہار پاتے ہیں۔ وہ اپنے عصر کی گم شدہ پہچان اورگم شدہ آواز کے تعاقب میں نِکلا ہوا غزل گو ہے:

اپنی گم آوازیں آئو تلاش کریں
سبز پرندوں کی سیّال صدائوں میں

سبز پرندوں کی سیّال صدائوں میں گم شدہ آوازوں کی تلاش کا عمل ہمیں بانی کے روحانی پس منظر کا پتہ دیتا ہے اور اس کی غزل کے کلیدی تجربے کی غماضی بھی کرتا ہے ۔ ہمیں یوں لگتا ہے کہ ملتان میں آنکھ کھولنے والا یہ شاعر جب ہجرت کے بعد دہلی چلا جاتا ہے تو ایک تہذیبی تسلسل قائم ہوتا ہے جو شہرِ اولیا سے اجمیر شریف کی روحانی فضا میں داخل ہو کر ایک نیارنگ دکھاتا ہے۔ اس روحانی عمل کی نمود مختلف علامتوں اور استعاروں کے ذریعے بھی تلاش کی جاسکتی ہے۔ بعض اشعار میں اس کا اظہار دو ٹوک انداز میں ہوا ہے ۔ ایک شعر میں اجمیر شریف کا ذکر ہے اور ایک غزل ِمسلسل اس روحانی پس منظر کی غمازی کر رہی ہے:

علی بن متقی رویا
وہی چپ تھا، وہی رویا

عجب آشوبِ عرفاں میں

فضا گم تھی کہ جی رویا

اذاں زینہ اتر آئی

سکوتِ باطنی رویا

خلا ہر ذات کے اندر

سنا جس نے، وہی رویا

ندی پانی بہت روئی

عقیدہ روشنی رویا

سحر دم کون روتا ہے

علی بن متقی رویا

بانی جب انسان کے روحانی زوال کو موضوع بناتے ہیں تو برصغیر کی روحانی فکر اس کے پس منظر میں موجود ہوتی ہے۔ وہ خارجی دنیا کے رنگ و روغن اور نمودو نمایش سے روح پر پڑنے والے داغ دھبوں کو اپنے اشکوں سے دھونے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ انسان کی ازلی و ابدی روحانی سرشت کو جگانے کے لیے کوشاں نظر آتا ہے۔ اپنے باطن میں جھانکنے کا درس دیتا ہے۔ اس کے لیے وہ صیغہ واحد اور جمع دونوں برتتا ہے:

ناف میں گم سب خواب مرے
ریت میں گم بستر میرا

میں اپنے اندر کی بہار

بانی کیا باہر میرا

ہم جسم سے ہٹا نہ سکے کاہلی کی برف
جس کی تہوں میں خواب بڑے تابناک تھے

کیسے کیے مقام آتے ہیں
میں ہواہوں کہاں کہاں خالی

وقت خود ہی عجب عذاب میں ہے

ایک اک لمحہ رایگاں خالی

آواز کوئی سر سے گزرتی چلی گئی
میں یہ سمجھ رہا تھا کہ حرفِ خطاب ہے

کِن پانیوں کا زور اسے کاٹ لے گیا

دیکھا تھا ہم نے ایک جزیرہ یہیں کہیں

وقت کے بنتے اور ٹوٹتے ہوئے دائروں کے تسلسل کا نام زندگی ہے اور یہ ایک جگہ پر نہیں رکتی، ہمیشہ آگے بڑھتی رہتی ہے۔ بانی زندگی کے اس تسلسل کو شدّت سے محسوس کرتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح مجید امجد کے ہاں یہ احساس پوری توانائی کے ساتھ ابھر تا ہے اور ایک منفرد منظر نامہ بناتا ہے۔ بانی کے ہاں شاخ سے گرتے ہوئے پتے کو دیکھتے ہوئے ایک نئے پتے کی آمد کا احساس نظر آتا ہے ، جو پرانے بوسیدہ پیرہن کے ایک نئے پیرہن میں بدلنے کے عمل کی علامت بن کر ابھرتا ہے۔ حیات کے اس تسلسل کو محسوس کرنے اور اسے آگے بڑھانے کا کام ہمیں بانی کے ہاں نظر آتا ہے۔ وہ حیاتِ انسانی کے اس ارتقا پر یقین رکھنے والا شاعر ہے۔ گویا وہ زندگی کے ایک ایسے عمل کا امین ہے جو صدیوں سے جاری و ساری ہے اور نہ جانے کتنی صدیوں تک یونہی چلتا رہے گا:

جاتے موسم کی عجب تصویر ہے چاروں طرف
درمیاں اس کے ہے اک پتہ ہرا ہوتا ہوا

اک نوا آہستہ آہستہ فنا ہوتی ہوئی

ایک حرفِ صد طلب چپ چپ ادا ہوتا ہوا

اک نظر امکاں ہزار امکاں سفر کرتی ہوئی

ایک منظر سو پرت یک سر، نیا ہوتا ہوا

ہجرت کا تجربہ اکیلا نہیں آتا۔ اپنے دامن میں ہجر و فراق، رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور یادوں کی ایک ایسی زنجیر لے کر آتا ہے جس کا آخری سرا کوشش کے باوجود ہاتھ نہیں آتا۔ ہجرت اور سفر لازم و ملزوم ہیں۔ کبھی کبھی ہجرت کا یہ سفر محض روحانی تجربے کی صور ت میں بھی ابھرتا ہے مگر یہ روحانی ہجرت ہوتی ہے۔ ایسی ہجرت جو دونوں سطحوں پر کرنا پڑتی ہے، بڑی جانگسل ہوتی ہے۔ انسانی ذات پگھل پگھل کر سیّال مادے کی طرح وقت کی شاہراہ پر رینگنے لگتی ہے۔ بانی کے ہاں ہجرت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ابھرتی ہے مگر بانی کی شخصیت کا یہ مثبت پہلو ہے کہ اس ہجرت نے اس کو ماضی پرست اور قنوطیت پسند نہیں بننے دیا بل کہ اس کے ہاں ہجرت ایک مثبت پیش رفت کی طرح ابھرتی ہے کہ جس کے دامن میں اچھے دنوں کی آس، بیتے دنوں کی یاد کے ساتھ مل کر عجب سماں باندھتی ہے:

تمام راستہ پھولوں بھرا ہے میرے لیے
کہیں تو کوئی دعا مانگتا ہے میرے لیے

مجھے بچھڑنے کا غم تو رہے گا ہم سفرو!

مگر سفر کا تقاضا جدا ہے میرے لیے

میں ترے بعد پھر اے گمشدگی
خیمۂ گردِ سفر سے نِکلا

ذرا سا کان لگا کے کبھی سنو گئے رات
کہیں سے آتی ہے گم سم صدا نہ جانے کیا

وہی بچھڑتے دنوں کی فضاے اشک آلود

وہی سفر کہ پرانا نیا نہ جانے کیا

نہیں ہے کس کی نظر میں افق کوئی نہ کوئی

اس آنکھ میں تھی کوئی شے جدا نہ جانے کیا

نکل گیا ہوں خلائوں کی سمت اے بانی

نواحِ جاں سے گزرتا ہوا نہ جانے کیا

ہجرت کے تجربے کے ساتھ اپنے پیاروں کے جدا ہونے کاغم بھی جڑا ہوتا ہے۔ ہجر اورہجرت ایک ہی تجربے کے دو رُخ ہیں۔ بچھڑتے ہوئے دو دلوں کی کیفیات سے ہماری شاعری بھری ہوئی ہے مگر بانی کے ہاں یہ جدائی اس لیے الگ نظر آتی ہے کہ وہ یاد کوذات کی جگہ پر لے آتے ہیں اور یاد پھیل کر صاحبِ یاد کی شکل میں ڈھل جاتی ہے اور بانی کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے:

بہت کچھ کہنے والا چپ کھڑا تھا
فضا اجلی سی حیرت کی طرح تھی

نہ آیا وہ مرے ہم راہ یوں تو

مگر اک شے رفاقت کی طرح تھی

میں ایک حادثہ بن کے کھڑا تھا رستے میں
عجب زمانے مرے سر سے تھے گزرتے ہوئے

نہ جانے کیا لوگ بچھڑے ہوں گے
وہ موڑ سنسان کس قدر تھا

ہجرت کے اس تجربے میں ہم نے ایک لہو کی لکیر کا ذکر کیا تھا۔ اس لہو کی لکیر کو بانی نے گوذاتی سطح پر قبول نہیں کیا مگر اس لکیر کے ہونے کا احساس ان کے ہاں موجود ہے کہ اب واپسی کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ واپس لوٹنے والے راستے دھواں دھواں ہیں اور چاہنے کے باوجود لوٹنا ممکن نہیں رہا۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس نے پوری نسل کے دامن کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس کی آنکھوں کو اشکوں کے غبار سے بھر دیا ہے:

میں اپنے پیچھے عجب گرد چھوڑ آیا ہوں
مجھے بھی رہ نہ ملے گی جو لوٹنا چاہوں

اک بکھرتی ہوئی ترتیبِ بدن ہو تم بھی
راکھ ہوتے ہوئے منظر کے سوا میں کیا ہوں

بستی ہے مری جاں یہ عجب بند گھروں کی

چل دے کہ یہاں رسمِ محبت نہ چلے گی

نگاہ ہم سفروں پر رکھوں سرِ منزل
کہ مرحلہ ہے یہ اک دوسرے سے ڈرنے کا

کوئی صدا نہ سماعت پہ نقش ہونے کی

نہ کوئی عکس مری آنکھ میں ٹھہرنے کا

رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ، شکست و ریخت اور نئی تقلیب بھی بانی کے ہاں فنی سطح پر اہمیت اختیار کرتی ہے اور اس احساس کے ساتھ جڑے ہوئے مختلف عوامل کو منظرِ عام پر لاتی ہے۔ اِس حوالے سے بانی کے ہاں خیال آفرینی کی صورت کچھ یوںبنتی ہے:

بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا
ہزار غم تھے مگر بھولتے بسرتے ہوئے

وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسنِ آخر تھا

کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے

زندگی خوابوں سے عبارت ہے اور شعر ان خوابوں کی شکست کا زایدہ ہے یہ شکستِ خواب ہمیں کم و بیش ہر شاعر کے ہاں نظر آتی ہے، بالخصوص ان شعرا کے ہاں شکستِ خواب کا منظر زیادہ شدت سے ابھرتا ہے جن کا شعری آرٹ واردات اور حسیاتی سطح پر تعمیر ہوتا ہے ۔ بانی کے ہاں یہ منظر نامہ زیادہ تہذیب کے ساتھ تشکیل پاتا ہے کہ اس کے ہاں کمال درجہ کا اعتدال موجود ہے۔ شکستِ خواب کے مناظر ہمیں ایک ایسے طرزِ احساس سے آشنا کرتے ہیں جس میں ایک ٹھہر ی ٹھہری کیفیت ہے۔ یہ ایک سبک خرام ندی کی صورت میں ہے جس کی لہریں زیادہ شور نہیں کرتیں:

کوئی بھولی ہوئی شے طاقِ ہر منظر پہ رکھی تھی
ستارے چھت پہ رکھے تھے ،شکن بستر پہ رکھی تھی

کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا
نظر کے سامنے منظر ہے بے کرانی کا

ٹوٹا عجب طرح سے طلسمِ سفر کہ جب
منظر ہمارے چار طرف ہولناک تھے

پچھلے پہر نے بڑھ کر میری چیخ سمیٹی
کاسہِ شب تھا شاید ایک صدا سے خالی

گریز کی کیفیت کسی ادھوری محبت کا حاصل بھی ہوسکتی ہے اور کبھی کبھی یہ گریز زندگی کا گریز بھی بن جاتا ہے ۔یہ کیفیت غزل کے آرٹ میں بھی جابہ جا نظر آتی ہے۔ یہی کیفیت ہمیں بانی کے ہاں بھی نظر آتی ہے جہاں وہ اپنے وصل کو مکمل کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں ۔یوں اُن کے ہاں گریز کی مابعد کیفیات کسک اور خلش کی رنگینی کے ساتھ ابھرتی ہیں۔ اس احساس کے کچھ رنگ دیکھیے گا:

پھینک دیتا ہے اِدھر پھول وہ گاہے گاہے
جانے کیا دیر ہے دامن مرا بھر دینے میں

تو کوئی غم ہے تو دل میں جگہ بنا اپنی
تو اک صدا ہے تو احساس کی کماں سے نکل

کوئی صدا نہ سماعت پہ نقش ہونے کی
نہ کوئی عکس مری آنکھ میں ٹھہرنے کا

آدھے ادھورے لمس نہ میرے ہاتھ پہ رکھ
کبھی سپردِ بدن سا مجھے میسر آ

کب تک پھیلائے گا دھند مرے خوں میں

جھوٹی سچی نوا میں ڈھل کر لب پر آ

سبب کہ اب تک وہ پوچھتا ہے

مری اداسی کہ آن بھر تھی

بانی کے ہاں گریز، شکستِ خواب، شکستِ ذات، ہجر، انتظار کے ساتھ ساتھ ایک یادِ مہرباں کا پیکر بھی بار بار اُبھرتا ہے جو شکست کے منظر کو بدل دینے کی سکت رکھتا ہےاور وارداتِ شعر کو بعض اوقات غیر معمولی خوب صورتی عطا کردیتا ہے۔ اس منظر کو ذرا ایک نظر دیکھیے اوراندازہ کیجیے:

کہیں سے آگیا اک ابر درمیاں ورنہ
مرے بدن میں یہ سورج اترنے والا تھا

مجھے سنبھال لیا تیری ایک آہٹ نے

سکوتِ شب کی طرح میں بکھرنے والا تھا

وہ ہنستے کھیلتے اک لفظ کہہ گیا بانی
مگر مرے لیے دفتر کھلا معانی کا

مجھے کیا خبر تھی تری آنکھ میں
عجب ایک رقصِ دِگر ہے مرا

نہ آیا وہ مرے ہم راہ یوں تو
مگر اک شے رفاقت کی طرح تھی

اب آسماں بھی بڑا شانت ہے، زمیں بھی سکھی
گزر گیا ہے جو ہم پر گزرنے والا تھا

مختلف مناظر اور لینڈا سکیپ کے ساتھ ایک احساس جڑا ہوتا ہے۔ اس احساس اور کیفیت کو لینڈ اسکیپ کے ذریعے مجسم کرنے کا عمل بھی غزل کی جملہ خوب صورتیوں میں سے ایک ہے۔ گو کہ یہ کام نظم کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے مگر غزل میں اس کا حسن اور طرح سے ابھرتا ہے۔ اس کے کچھ مظاہر ہمیں بانی کے ہاں بھی نظر آتے ہیں ۔اس طرزِ احساس کا ایک رنگ ملاحظہ ہو:

کہاں تلاش کروں اب افق کہانی کا
نظر کے سامنے منظر ہے بے کرانی کا

ندی کے دونوں طرف ساری کشتیاں گم تھیں

بہت ہی تیز تھا اب کے نشہ روانی کا

میں کیوں نہ ڈوبتے منظر کے ساتھ ڈوب ہی جائوں

یہ شام اور سمندر اداس پانی کا

پرندے پہلی اڑانوں کے بعد لوٹ آئے

لپک اُٹھا کوئی احساس رایگانی کا

منچندا بانی کی شاعری اپنے عہد کی ایک نمایندہ آواز ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کا طرزِ احساس، مضامین اور لفظیات اتنے جدید ہیں کہ یہ اکیسویں صدی کی غزل کے ساتھ رکھی جاسکتی ہے۔ اس کی شاعری کا مطالعہ میرے لیے خوش گوار حیرتوں کا سفر تھا جس میں رنگ رنگ کے مناظر میرے ساتھ ساتھ تھے۔

______________

Related posts

Leave a Comment