بہ نوکِ خار می رقصم ۔۔۔ سلمیٰ یاسمین نجمی

بہ نوکِ خار می رقصم

(۱)
وہ چاروں ڈیلٹا ایر لائن کے ذریعے چند منٹ پہلے اور لینڈ و پہنچی تھیں۔نیلے کانچ کی طرح صاف شفاف آسمان تاحدِّ نظر پھیلا ہوا تھا۔اس میں بادلوں کے سپید پھولے ہوئے گالوں جیسے بادلوں کا انبار لگا ہوا تھا۔
’’کیوں شمو کتنا خوبصورت آسمان ہے بالکل ہمارے وطن جیسا…‘‘
’’گرمی بھی ویسی ہے،دم نکلا جا رہا ہے۔‘‘شمو نے اپنی منی سی ناک چڑھائی۔’’مجھے لگتا ہے ساری تفریح نکل جائے گی ،ہمیں اس موسم میں نہیں آنا چاہئے تھا۔‘‘
’’جب چھٹیاں ہوتی ہں تب ہی تو آ سکتے ہیں ،اب جو ہو گا دیکھا جائے گا،بھگت لیں گے۔‘‘شاہ گل نے تسلی دی۔
چاروں لڑکیاں اپنے بیگ کاندھوں پر لٹکائے اپنے رول اون کھینچتی مونو ریل پر سوار ہو گئیں جو انھیں بیگم کلیم تک لے جا رہی تھی۔جہاں ان کے سوٹ کیس پہنچ چکے تھے۔اپنا پنا سامان انھوں نے ٹرالیوں پر دھرا اور باہر انتظار گاہ کی کرسیوں پر لڈ گئیں۔
’’ہاں بھئی کوئی ایک جا کر کار ہائر کرے اور دوسری میم صاحبہ ہمارے لیے کافی لے آَیں۔وہ سامنے سٹار بکس نظر آرہا ہے۔‘‘حبہ نے اپنی ٹانگیں پھیلائیں۔ایرنائیکے کے جوگرز میں اس کے پائوں تپ رہے تھے۔
’’مَیں اورنیلما جاتے ہیں کار ہائر کرنے،مہر النساء کافی یا کولڈ ڈرنکس لے آئے گی۔‘‘شمامہ نے فیصلہ کیا۔
’’میرے لیےFrappuccino لانا ود کیرا مل‘‘ حبہ کسلمندی سے بولی۔
’’اور ہمارے لیے کولڈ ڈرنکس اس گرمی میں کافی پی کر مرنا ہے…‘‘نیلما بولی۔
’’یاد ہے سب سے سستی والی گاڑی لینی ہے۔ایسا نہ ہو کوئی پوش قسم کی کیڈی یا لنکن اٹھا لائو۔‘‘حبّہ نے یاددہانی کرائی۔
’’ہمارا تعلق برونائی کے سلطان کے خاندان سے نہیں ہے،اطمینان رکھو۔‘‘
’’اپنا لندن اچھا ہے کار کے بغیر زیادہ اچھی گزر بسر ہو جاتی ہے۔کیا عمدہ ٹرانسپورٹ سسٹم ہے،ٹیوب میں بیٹھے اور ہر جگہ پہنچ گئے ،امریکہ اس لحاظ سے بڑا واہیات ہے۔‘‘
’’یہ تم ہر وقت لندن کے گن گانے کیوں بیٹھ جاتی ہو۔‘‘
’’بے چارہ غریب کا گٹھلی جیسا ملک ہے ان تنگ سڑکوں پر گاڑی کہاں چلائیں،گاڑیاں وہاں صرف دیکھنے دکھانے کی چیز ہے،چمکائی اور کپڑا ڈال دیا اور ٖخود بسوں اور ٹیوبس میں جا بیٹھے۔کہاں امریکہ اور کہاںسوکالڈو گریٹ برسٹین۔‘‘حبّہ نے طنز کیا۔
’’چوروں،ڈاکوئوں کا ملک بلکہ قاتلوں کا،کیسے انھوں نے ریڈ انڈینز کو مارا،ان کی زمین چھین لی اور ان کو مارشز(دلدلی علاقہ) کی طرف دھکیل دیا۔‘‘مہر النساء کافی کا مگ حبہ کو پکڑاتے ہوئے بولی۔
’’نومور پالیٹکس،بھوک سے جان نکل رہی ہے۔‘‘
’’میک ڈونلڈ سے فش برگر اور ملک شیک لے آئوں۔‘‘
’’نہیں یار اب آگے میک ڈونلڈ میں کھانا ہوگا،ابھی باہر نکلتے ہیں نا،بیسٹ وے سے سی فوڈ کا ایک فٹ والا برگر لیتے ہیں۔‘‘
’’کھا لوگی اتنا بڑا۔‘‘
’’ایک میٹر کا ہوتا تو وہ بھی کھالیتی۔‘‘
’’پٹھانی ہو نا ماشاء اللہ بستا ہے پورا پورا دنبہ کھا جاتے ہیں۔‘‘
’’اب ایسی بات بھی نہیں ہے،کیا کریں کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ ہیں ہم،بھوکے مریں ہمارے دشمن۔‘‘
’’وزن کا خیال رکھو شاہ گل ،وزن بڑھتا تیزی سے ہے مگر کم مشکل سے ہوتا ہے۔‘‘حبّہ نے شآہ گل کے گداذ جسم کا تنقیدی جائزہ لیا۔
نیلما اور شاہ گل گاڑے ہائر کرنے چلی گئیں۔ایرپورٹ پر کاررینٹل کے بے شمار دفاتر تھے،تقریباً ہر کمپنی کی گاڑی دستیاب تھی،مہنگی سستی جیسے چاہو لے لو۔ تقریباً ایک گھنٹے کی بحث و تحمحیص کے بعد دونوں چابیاں جھلاتی آگئیں۔
’’کون سی گاڑی لی ہے؟‘‘
’’فورڈ‘‘
’’چھوٹی نہیں رہے گی؟‘‘
’’ہم چاروں کے لیے کافی ہے اور کیا مرسی لینی تھی۔اس کا رینٹ بھی دو سو دس ڈالر ہفتہ ہے،وہ بھی اس لیے کہ ہم چار ہفتوں کے لیے لے رہے ہیں۔‘‘
’’انشورنس شامل ہے:‘‘
’’بالکل بالکل‘‘
’’لندن جیسے مزے کہاں،پاس بنوالو اور سارا دن بسوں اور ٹیوبز میں سفر کرتے رہو۔سارا شہر چھان مارو۔میرے پاپا بتا رہے تھے کہ جب وہ سٹوڈنٹ تھے ایک ایس سی کے (لندن سکول آف اکنامسٹ) کے تب بسوں کے جو روٹ اور نمبر تھے اب بھی وہی ہیں۔‘‘شمامہ نے آہ بھری۔
’’پھروہی لندن،بھول جائو اس گائوں کو،اس کا سورج ڈوب گیا۔‘‘
’’میرے خیال میں وہاںکوئی چیز تبدیل نہیں ہوتی۔حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے سو بیٹھ گئے۔میرا خیال ہے آپ کے پاپا کے زمانے میں بھی یہی کوئین ہوں گی اور ان شاء اللہ آپ کے پوتے بھی اسی ملکہ کی راج دھانی میں اسی نمبر کی بس کی سواری کریں گے۔‘‘
’’بے چارا چارلس کیا کرے گا۔وہ تو پہلے ہی بڈھا ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
’’اسے کیا کرنا ہے،ڈائنا کو خون کے آنسو رلاتا رہے گا۔‘‘
’’اب چلو بھی ابھی ہمیں کسی سی(kissimoc) پہنچنا ہے۔تقریباً ایک گھنٹہ لگ جائے گا ،میپس بھی لے آئی ہوں۔گھر بھی ڈھونڈنا ہوگا۔‘‘
کار پارکنگ میں ان کی بالکل نئی نکور گہرے فیروزی رنگ کی گاڑی لشکارے ماررہی تھی۔سب کو فوراً پسند آگئی۔اچھی طرح اس کا جائزہ لیا گیا۔
’’برینڈ نیو لگ رہی ہے۔‘‘حبّہ بے پسندیدگی کا اظہار کیا۔
’ہاں توجناب،ہم نے کوئی کچھ گولیاں نہیں کھیلی ہوئی۔ہم نے نئی کے لیے انسسٹ(insist) کیا۔کچھ بندہ شولرس تھا کچھ شاہ گل کا گورا رنگ اور شربتی انکھیاں کام آگئیں،وہ اسے ایشئین نہیں پورپئین سمجھا اور محض سو میل چلی ہوئی گاڑی حوالے کر دی۔‘‘
شاہ گل مسکرائی’’یہ مرد ذات ہوتی ہے سٹوپڈ ہے،میں نے ذرا مسکرا کر دیکھا نہیں کہ دم ہلانے لگا۔‘‘
’’تمھاری تو یہ منحوس عادت ہے ہر ایک کو دانہ ڈالو،کام نکلوائو اور دھتّا بتا دو۔‘‘
’’تو بھئی دم ہلانے والوں کو گود میں تو نہیں بٹھایا جا سکتا نا،یہ ناپاک ہوتے ہیں۔ان کو دیکھ کر رحمت کے فرستے بھاگ جاتے ہیں۔‘‘شاہ گل ایک آنکھ بند کرکے شرارت سے ہنسی۔
شاہ گل ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی،شمامہ نے ساتھ بیٹھ کر نقشہ سنبھالا۔حبّہ اور نیلما پچھلی سیٹ پر نیم دراز ہو گئیں۔
’’ذرا ایگزٹس کا دھیان رکھنا ورنہ یہیں ایر پورٹ پر گھومتے رہیں گے اور آنتیں قل ہو اللہ پڑھتی رہیں گی۔‘‘
’’اس شولرس نے ہمیں نقشہ بنا تو دیا ہے،ہمیں باہر نکل کر417 لینی ہے۔یہی سڑک ہمیں کسی می تک لے جائے گی۔‘‘
’’یہاں تو غضب کی گرمی ہے ،توبہ توبہ اورہیومیڈی ٹی(Humidity( کتنی ہے،پسینے میں نہا گئے۔‘‘بھئی آخر سن شائن اسٹیٹ ہے،گرمی تو ہو گی،ہو سکتا ہے بارش ہو جائے۔سنا ہے یہاں منٹ میں بارش منٹ میں مطلع صاف ہو جاتا ہے۔‘‘
’’موسم بھی ہماری حبّہ جیسا ہے منٹ منٹ پر رنگ بدلنے والا۔‘‘
’’مگر گرم نہیں ہے وہ کیا شعر ہے موسم کا مزہ لینا ہے تو ان آنکھوں میں آبیٹھو،بادل بھی ہیں بارش بھی اور شفق بھی۔‘‘
’’شعر کی ٹانگ توڑنے کی بجائے باہر کے مناظر دیکھو۔‘‘
چوڑی ہموار سڑک پر گاڑی تیرتی چلی جا رہی تھی۔نیویارک کی طرح اونچی اونچی عمارتیں نہیں تھیں۔ہر طرف کنسٹرکشن ہو رہی تھی۔زمین ہموار کی جا رہی تھی۔مصنوعی جھلیں بنائی جارہی تھیں جن کے کنارے گھروں کے لکڑی کے فریم کھڑے تھے۔یہ علاقہ دللدی تھا جس پر مٹی ڈال ڈال کر رہنے کے قابل بنایا جا رہا تھا۔یہاں کا خا درخت پام ہے جو جگہ جگہ نظر آرہے تھے۔
وہ کسی می کے شہر میں داخل ہو گئی تھیں۔یہاں ڈزنی لینڈ،سی ورلڈ یونیورسل سٹوڈیوز وغیرہ بہت سی اٹریکشنز تھیں۔سڑک کے کنارے ان کے سائن بورڈ دعوت دے رہے تھے۔ہر ہوٹل کی شاخ موجود تھی۔سستے ٹکٹوں کی آفرز تھیں۔ایک بہت بڑی اورپیچدار واٹر سلائڈتھی۔ٹورسٹ بچے نہانے کے لباس میں قطار در قطار کھڑے تھے تا کہ سلائڈ سے پھسلتے ہوئے پانی کے تالاب میں آگریں۔منی گولف کے چھوٹے چھوٹیَ خوبصورت کورٹس بنے ہوئے تھے ۔وہ دونوں طرف کے مناظر سے لطف اندوز ہوتی جا رہی تھیں۔
راستے میں انھوں نے رئیل اسٹیس والوں سے گھر کی چابی لی۔سب وے سے سینڈوچ لیے۔سیدھا راستہ تھا،کوئی ایسے پیچ و خم نہیں تھے باآسانی مونٹیگو بے پہنچ گئیں۔یہاں شارٹ ٹرم پر دو دوکمروں کے گھرباآسانی مل جاتے ہیں۔ستر ڈالر روز کوئی اتنے مہنگے نہیں تھے۔ویسے بھی یہ سب تو حبّہ کے والد نے ارینج کیا تھا۔
اپنا سینڈوچ کھاتے ہوئے حبّہ کے کہا’’ابھی طے کریں کہ ہمیں کیا کیا دیکھنا ہے۔‘‘
’’وہی سٹینڈرڈ چیزیں،ڈزنی،یونیورسل سٹوڈیوز اور سیلڈ‘‘
’’وہ تو ہے،پر ہم نے سوچا تھا نہ کہ کی ویسٹ بھی جائیں،کورل آئی لینڈ دیکھنے۔‘‘
’’کیوں نہیں پورا ایک مہینہ ہے ان شاء اللہ ہر چیز دیکھیں گے،کئی دن تو ہمارے ڈزنی لینڈ میں ہی لگ جائیں گے۔‘‘
’’فی الحال تو آرام کریں سخت نیند آرہی ہے…‘‘
(۲)
اسے یوں لگا جیسے فون کی گھنٹی بج رہی ہو ۔آواز بہت دور سے آرہی تھی۔اس نے جاگنا چاہا۔مگر نیند اتنی گہری تھی کہ اس کے حصار س نکلنا مشکل ہو رہا تھا ۔جاگنا چاہ رہی تھی مگر جاگ نہیں پا رہی تھی۔بُری طرح جکڑی ہوئی تھی۔
’’حبّہ اٹھو،تمھارے ڈیڈی کا فون ہے،کئی بار کر چکے ہیں۔‘‘
اس نے اپنی بڑی بڑی ہلکی برائون آنکھیں کھولیں،ایک لمحے کو تو اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کہاں ہے۔اس نے خود کو بمشکل گھسیٹ کر بستر سے نکالا۔اپنی پیورکوٹن کی گلابی نائٹی کو سنبھالتی ہوئی کچھن کی طرف لپکی،جس کی دیوار میں فون آویزاں تھا۔
’’جی بابا جانی‘‘
’’کمال کیا ہے بیٹے جا کر خیریت کا ایک فون تک نہ کیا،تمھاری ماما اور مَیں کتنے فکر مند تھے۔کچھ خیال ہے تمھیں۔‘‘
’’آئی ایم سوری بابا جانی،ہم لوگ بُری طرح تھک گئے تھے۔ایسے ڈے کہ ہوش ہی نہیں رہا،اب آپ نے جگایا ہے۔‘‘
’’کیسا ہے گھر‘‘
’’ناٹ بیڈ،کوائٹ کمفرٹ ٹیبل،دو بیڈ رومز ہیں،ایک ٹی وی لائونج،کچن،ڈائننگ کوارٹر ہے،ایک فل باتھ روم اور ایک ہاف ،ایک سوئمنگ پول بھی ہے۔جس کے کنارے چاندنی رات میں باربی کیو بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘
’’کیا میں نے اتنی لمبی تفصیل پوچھی ہے؟افتخار کہہ رہا تھا کہ اچھی محفوظ جگہ ہے ویسے بھی اس اسٹیٹ میں کرائم ریٹ بہت کم ہے۔تم لوگ اس کو فون کر لینا،وہ تو چاہتا تھا کہ تم اس کے گھر ٹھہرو،مگر تم نہیں مانیں۔بہرحال جا کرمل آنا،جھیل کے کنارے بالکل نیا گھر ہے۔شاید تم لوگوں سے پندرہ منٹ دور ہے۔یووول لائیک دا ویو۔اپنا خیال رکھنا،سوڈا مت پینا،اس کی بجائے جوسزز پینا،گاڑی کون سی لی ہے؟‘‘
’’فورڈ‘‘
’’یہ چھوٹی ہو گی۔بڑی لے لیتے،وہ محفوظ ہوتی ہے۔بہر حال خایل سے ڈرائیور کرنا۔ٹیک کیئر ڈارلنگ،کوئی پرابلم ہو تو افتخار انکل سے بات کر سکتی ہو…اور ہاں موسم کیسا ہے۔‘‘
’’واہیات بابا جانی،ہیومڈ اور گرم ،ہم نے روم ٹمپریچر سوئی70 پر رکھا ہوا ہے۔ماما کو سلام،فاروق اور شیراز کو پیار بائی۔‘‘
وہ صوفے پر ڈھیر ہو گئی،باقی تینوں بھی اٹھ گئی تھیں۔
’’ناشتے کا کیا ہواگا؟‘‘
’’ٹھنڈا پانی ہے، لائوں؟‘‘
’’چلو پھر چل کر پہلے شاپنگ کریں،پبلیکس چلتے ہیں،ذرا ناشتے کا سامان تو لے آئیں۔‘‘
نیلما نے فرج کھول کر نعرہ لگایا:’’ افتخار انکل زندہ باد،سب کچھ ہے۔بریڈ،دودھ،جوس،انڈے،جیم،مکھن،چیز سپریڈ،مائی گڈ نیس وافلز بھی ہیں اور آنٹ جیمیما کا میپل سیرپھی اور کیا چاہئیے۔ذرا کچن کیبنٹ کھولو یقیناً سیریلز بھی ہوں گے۔‘‘
شاہ گل نے ایک سلپ اٹھائی۔’’انکل افتخار نے پاکستانی سٹورز،مینا بازار وغیرہ کے ایڈریس بھی لکھے ہوئے ہیں۔‘‘
نیلما نے کیبنٹ کھولی’’لیجئے ینگ لیڈیز آپ کے پسندیدہ سیریلز بھی موجود ہیں،کیا پیش کروں فروسٹنڈ فلیکس،کوکوپیبلز،چیریوز،ہکم کریں۔‘‘
’’چلو بھئی پہلے ناشتہ کریں پھر کسی می کو ایکسپلور کریں گے۔‘‘
’’نیلما کو شوق ہے کوکنگ کا،کبھی کبھی دال چاول تھ کھلائے گی نا۔ویسے بھی اردو سپیکنگ امور خانہ داری میں ماہر ہوتے ہیں۔‘‘
ہاں تو اس کی امی نے اپنی صاحبزادی کو سارے ہنر اور سلیقہ سکھایا ہے۔دسیوں انگلیوں میں دس چراغ جل رہے ہیں۔سلائی پرائی، کڑھائی بنائی اور کھانا پکائی۔‘’شمامہ نے کہا۔
’’ہاں تو کیا کریں،ہمارے پاس دولت کے شینڈلیٹرز تو ہیں نہیں ،نہ گاڑی نہ بنگلہ نہ زیور نہ کپڑا تو پھر یہی چراغ کام آئیں گے نا۔‘‘
’’چلو ڈیوٹیاں تقسیم کر لیتے ہیں۔نیلما کچن سنبھالے گی۔شاہ گل ڈرائیونگ اور استری میں ویکوم اور ڈسٹنگ۔‘‘
’’اور پرنس حبّہ کیا کریں گی؟‘‘
’’حبّہ اوفیسر اون سپیشل ڈیوٹی،سارے انتظامات،ارینج منٹس وغیرہ وغیرہ۔‘‘
’’یہ وغیرہ وغیرہ کیا ہے؟‘‘
’’وغیرہ وغیرہ ہی تو سب کچھ ہے،ہمارے کام تو محدود اور مخصوص ہیں اور وغیرہ وغیرہ لا محدود مثلاً شاپنگ،باہ لنچ،ڈنر اور سنیکس وغیرہ۔‘‘ سب ہنسنے لگیں۔
’’ایسی کوئی بات نہیں،تم لوگ میرے ذمے بھی کوئی کام لگا دو،چلو میں ناشتہ بناتی ہوں،تم لوگ باری باری شاور لے لو۔ایٹ لیٹ مجھے ناشتہ بنانا تو آتا ہے۔‘‘
’’تم تو کشمیری ہو، سنا ہے کشمیری تو کھانے پینے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔‘‘
’’ہم موڈرن کشمیر ہیں بلکہ امریکن کشمیری۔‘‘
’’شکل تو خالص کشمیری ہے۔‘‘
’’شکل اللہ نے بنائی ہے اور کھانا پینا ہمارے اختیار میں ہے،سو ہم نے شب دیگیں اور گشتابے چھوڑ کر فرینک فرٹرز اور سلاسیاں کھانی شروع کر دی ہیں۔‘‘
’’واہ بھئی اپنے کھانوں کے نام یاد ہیں۔اس کا مطلب ہے کشمیر تمھارے اندرابھی زندہ ہے۔‘‘
’’ہاں شاید ہم جس ملک کو بلونگ(Belong) کرتے ہیں وہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ہم لاکھ دامن چھڑائیں،اب دیکھونا اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ میں کون ہوں تو میں کیا بتائو گی۔امریکن تو وہ مانیں گے نہیں کیوںکہ میں ایشیائی لگتی ہوں۔‘‘
’’یہ تو ہے،انگلینڈ میں سارے نان انگلش ایشئین یا ایفریقن کہلاتے ہیں اور امریکہ میں کوئی ایفرو امیرکن،چائنز امیرکن وغیرہ کہلاتا ہے۔یہ دم چھلا تو لگا ہی رہے گا۔‘‘
’’چلو پھر حبّہ تم ناشتہ بنائو،میں اور نیلی باتھ روم جاتے ہیں اورشاہ گل تم کیا کروگی۔‘‘
’’میں ٹی وی دیکھوں گی۔‘‘
’’خبردار! ڈزنی چینل کے علاوہ اور کچھ نہ دیکھنا۔‘‘شمامہ ہنسی۔
’’یہاں ڈزنی کے علاوہ بھی سارے چینلز صاف ستھرے ہیں۔گھبرائو نہیں میرے اخلاق پر کوئی بُر ااثر نہیں پڑے گا۔کیبل ریکوسٹ پر ملتا ہے۔‘‘
’’سنا ہے،ٹوائی لائٹ زون، کا میراتھا ن ہوگا،فورتھ اوف جولائی کی خوشی میں۔‘‘
’’دیکھ لیں گے تھوڑا بہت،وقت ملا تو بورنگ سا ہی ہو گا۔‘‘
’’دیکھنے کو تو بہت کچھ ہے،اولڈ موویز،مرڈر شی روٹ،کولبھو،پیری مسین،راک فورڈ فائلز اور بھی بہت کچھ۔‘‘
’’بڑی معلومات ہیں بھئی،تو کیا ہم یہاں ٹی وی دیکھنے آئے ہیں۔نیوجرسی میں کیا ٹی وی نہیں تھا۔سنو ہم سیر کرنے آئے ہیں۔ہمارے پاس وقت کم ہے اور دیکھنا بہت زیادہ ہے۔‘‘
شمامہ اور نیلما اپنے کپڑے نکالنے لگیں اور حبّہ کھانے کی میز پر سیریل کے پیالے،چمچے،مکھن،پنیر سجانے لگی۔ایک جگ میں ٹھنڈا دودھ ڈالا۔الیکٹرک کیبل کا پلگ لگایا۔پیالیوں میں ٹی بیگز ڈال دیے۔فرائنگ پین میں تیل ڈالا،انڈے لا کر رکھے۔
شاہ گل صوفے پر نیم دراز چینل پر چینل بدل رہی تھی۔کئی چینلز پر ٹاک شوز ہو رہے تھے۔مشہور کالی دنفری اوپرا کا شو ہو رہا تھا۔سٹیج پر لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ایک نے ناک میں بلاق لٹکایا ہوا تھا۔ایک چھوکری نے زبان میں موتی جڑا ہوا تھا۔کسی کے سارے کان چھدے ہوئے تھے،جن میں طرح طرح کی بالیاں اور بندے لٹک رہے تھے۔ایک لڑکی نے تو غضب کیا ہوا تھا۔ناک میں پتلی سی زنجیر ڈال کر منہ سے نکال کر کان کے ٹاپس میں لٹکائی ہوئی تھی۔‘‘
’’حبّہ ذرا دیکھنا تو کیا حیرت انگیز مخلوق آئی ہوئی ہے۔اور دنفری کتنی دبلی ہو گئی ہے لگتا ہے کریش ڈائٹنگ کی ہے۔‘‘
’’میں نہیں دیکھتی یہ فضول قسم کے نیسک شو،پتہ نہیں ان لوگوں کو ابنارمل اور مافوق الفطرت چیزوں سے کیا دلچسپی ہے۔‘‘
’’کچھ جھلکیاں تو ملتی ہیں نا یہاں کی زندگی کی۔‘‘
’’تم نیوز چینل لگائو،کوئی بوسینا یا کشمیر کی خبر ہے کہ نہیں۔‘‘
’’کیوں کشمیر کو کیا ہوا۔‘‘
’’تمھیں نہیں پتہ‘‘
’’لڑ رہے ہوں گے آپس میں ہماری طرح‘‘
’’تو لوگ تو بیوقوف ہو،سپر پاور جیسی طاقت کو کیوں چنے چبوا دیتے اور اب آپس میں ہی گھتم گتھا ہو گئے۔واقعی کرسی بڑی خراب چیز ہے۔‘‘
’’انکل سام کا اور کام کیا ہے۔جب روس کا تیا پانچہ کرتا تھا تو ہمارے پائوں چاٹ رہے تھے،مجاہد آنکھ کا تارا تھے اور اب اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے لیے بھائی کو بھائی سے لڑا رہے ہیں۔‘‘
’’یہ بھائی کیسے ہیں؟ جو غیروں کے اکسانے پر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگے۔‘‘
’’تم ہمیں چھوڑ و،یہ بتائو کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔‘‘
’’زیادہ تو مجھے بھی پتہ نہیں،گھر میں جو بات چیت ہوتی ہے اس سے پتہ چل رہا ہے کہ انڈیا نے آزادی کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔بھارتی فوجوں نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کررکھا ہے۔نیوز میں تو کچھ آتا نہیں۔جو لوگ وہاں سے آتے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے۔‘‘
’’پاکستان نے ہماری تو بہت مدد کی تھی حالانکہ ہم دوسرا ملک تھے،کشمیر تو سنا ہے پاکستان کی شہ رگ ہے کیا وہ مدد نہیں کر رہا۔‘‘
’’کر رہا ہوگا مگر مجھے زیادہ پتہ نہیں ہے۔ہماری وجہ سے دو جنگیں تو ہو چکی ہیں پاکستان کی انڈیا کے ساتھ۔یہاں کی زندگی انسان کو یوں اپنے میں جذب کرتی کہ کسی اور چیز کا ہوش ہی نہیں رہتا۔بس پڑھائی،میزوک،سیر و تفریح اور موویز۔‘‘
نیلما اور شمامہ نہا کر نکل آئی تھیں۔’’چلو تم دونوں بھی تیار ہو۔ناشتے کا وقت تو رہا نہیں برنچ ہی کرنا پڑے گا۔اب رات کوہی کھانا کھائیں گے،ہری اَپ۔‘‘
(۳)
حبّہ اور شمامہ نے جینز اور ٹی شرٹس پہنی ہوئی تھیں ۔شاہ گل نے لمبا سکرٹ اور اس پر ڈھیلا کرتا اور سر پر رومال لپیٹا ہوا تھا اور نیلما نے شلوار قمیض اور سر پر دوپٹہ۔
’’میری سمجھ میں آج تک اس سکارف کی تُک سمجھ میں نہیں آئی ۔تمھارا خیال ہے بس سر پر ایک رومیلیا لپیٹنے سے پردہ ہو جاتا ہے۔یا تو پورا پردہ کرو ورنہ یہ رومال بھی ہٹا دو۔‘‘حبّہ نے ناک چڑھائی۔
’’بھئی میں افغان ہوں کچھ تو شرم رکھنی ہے نا۔‘‘
’’اچھا،ظاہر شاہ اور ملکہ ثریا کے زمانے میں تو زبردستی پردے اتروائے گئے تھے،کابل بڑا ماڈرن شہر تھا۔۔‘‘نیلما نے کہا۔
’’اور تم نے یہ دوپٹہ کس خوشی میں لپیٹا ہے؟‘‘
’’بھئی یہ مڈل کلاس کی نشانی کیسے اتار دے۔‘‘شمامہ بولی’’یہ کلاس دین اور دنیا کی ٹیگ اوف وار میں پھنسی ہوئی ہے،کبھی اس طرف ہو جاتی ہے کبھی اس طرف،کنفیوز کلاس۔‘‘
مڈل کلاس ہی تو کسی سوسائٹی کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔تم اتنی نفرت سے اس کا ذکر مت کیا کرو۔ریڑھ کی ہڈی نہ ہو تو پتہ ہے کیا ہوتا ہے۔مفلوج ہو جاتا ہے سارا جسم۔‘‘نیلما بولی۔
’’تم ریڑھ کی ہڈی ہو تو ہم کیا کریں؟‘‘شمامہ نے پوچھا۔
’’پیرا سائٹ‘‘
’’ہائو ڈئیر یو‘‘(How dare you)
’’بس بس نومور کلیش،یہی آپس کے جھگڑے تو ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیتے۔‘‘حبّہ نے صلح کرائی۔
’’یہ شخصی آزادی کا زمانہ ہے،کوئی جبر نہیں ہے،جیسے چاہو جیو،جو چاہو،پہنو۔کوئی سکارف لینا چاہتا ہے تو لے لے،جو نہیں لینا چاہتا وہ نہ لے۔جو بکنی پہنا چاہے وہ پہنے ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔‘‘شاہ گل نے فیصلہ کیا۔
’’اب ہم اتنے بھی گئے گذرے نہیں ہیں کہ بکنی پہن کر بیٹھ جائیں۔‘‘حبّہ نے بات کاٹی۔
’’میں نے تو بس اتنا کہا تھا کہ پردے کی یہ قسم میری سمجھ میں نہیں آتی کہ بال چھپا لیے اور سارا جسم دعوت نظارہ دیتا رہے۔یہ سب جنرل ضیاء کا کیا دھرا ہے۔انھوں نے دوپٹہ لازم کر دیا تھا۔‘‘
’’ختم کرو بس،یہ سوچو کہ پہلے سی ورلڈ دیکھنا ہے کہ یونیورسل سٹوڈیوز یا پھر سیدھا ڈزنی کے ٹکٹ لے لیں۔‘‘
’’آج تو کچھ نہیں دیکھیں گے۔سڑکوں پر مارے مارے پھریں گے۔پھر مووی دیکھیں گے،سلور سٹرسٹون کی کلف ہینگر کیسی رہے گی۔ پھر کل کا پروگرام بنائیں گے۔‘‘شمامہ نے مشورہ دیا۔
’’یہ جو بیوروکریٹس اور بڑے بڑے فوجی افسر ہوتے ہیں نا ان میں سے بھی زیادہ تر کا تعلق ہمارے دیہات سے ہوتا ہے۔یہ بھی مڈل کلاسئیے ہی ہوتے ہیں۔سی ایس ایس کا امتحان دیتے ہیں تو سمجھو ان کی لاٹری نکل آتی ہے۔ان کو گروم کیا جاتا ہے اور وہ خود کو ایلیٹ کلاس سمجھنے لگتے ہیں اور اپنے ماضی کو ایسے بھول جاتے ہیں جیسے سدا سے اسی کلاس کو بلونگ(Belong) کرتے ہوں ۔‘‘نیلما نے کہا۔
’’یہ تم مجھ پر چوٹ کر رہی ہو۔‘‘شمامہ تلملا کر بولی۔
’’بھئی مجھے تمھارے بیک گرائونڈ کا کیا پتہ۔میں تو ان کی بات کر رہی ہوں جو مڈل کلاس کا ٹھپہ یوں اتارتے ہیں جیسے کوئی پھٹا پرانا کپڑا اتار کر ڈسٹ بن میں پھینک دیتا ہے اور مجھے تو اپنے مڈل کلاس ہونے پر فخر ہے۔ہمارا کلچر اور ہمارے نظریات بالکل مختلف ہیں۔‘‘نیلما نے وضاحت دی۔
’’بھئی یہ تمھیں تو نہیں کہہ رہی نا۔اب یار تم ایسے بی ہیو مت کرو جیسے وہ چور کرتا ہے جس کی داڑھی میں تنکا ہوتا ہے۔‘‘حبّہ ہنس کربولی۔’’یہ خالص ہے یعنی اورگینک ہے۔‘‘
’’ایاز قدر خود بشناس‘‘شاہ گل نے لقمہ دیا۔
’’اب سب تو ایاز نہیں ہوتے نا کہ اپنے پھٹے پرانے کپڑے ایک بس میں بند کرکے رکھ لیں اور وقتاً فوقتاً اس کا ملاحظہ کرتے رہیں۔‘‘
’’تم سب میرے پیچھے ہاتھ دھو کر کیوں پڑ گئی ہو۔‘’شمامہ روہانسی ہو گئی۔
’’تم ہر چیز اپنے اوپر لے لیتی ہو۔کم ان یار۔یہ کیا عادت ہے۔‘‘حبّہ اپنا بیگ ٹٹول رہی تھی۔
’’آئو تمھیں سنڈی لاپر کا نیا گانا سنوائوں ٹائم آفٹر ٹائم…‘‘
’’میں تو ایک جنرل بات کر رہی تھی ۔بھئی ہمارے سندھ کے یہی ایک بڑے وکیک صاحب کسی بوڑھے کو ڈانٹ رہے تھے۔جو اندرون سندھ کے کسی گائوں سے ملنے آیا تھا۔دوست نے پوچھا ،یہ کون ہے؟کہنے لگے ہمارے گائوں کا کمّی ہے۔میں نے وظیفہ باندھ رکھا ہے ،اسی کا پتہ کرنے آیا ہے۔میں ہر ماہ بھجوا دیتا ہوں۔پھر بھلا آنے کی کیا ضرورت ہے۔آنکھوں میں آنسو لیے بوڑھا واپس ہو گیا۔دوست اس کے پیچھے چلا گیا کہ کیا معاملہ ہے۔اسے کیا چاہیے۔تو اس نے کہا کہ میں اس کا باپ ہوں،کچھ لینے نہیں آیا صورت دیکھنے آیا تھا۔‘‘
’’بھئی نیلما تم ایسی موریڈ باتیں مت سنایا کرو۔لائف انجوائے کرنے دو۔موڈ خراب کر دیا۔‘‘شاہ گل نے احتجاج کیا۔
’’ان ہندوستانیوں کو عادت ہوتی ہے لمبی لمبی باتیں کرنے کی۔‘‘
شمامہ بولی’’اپنی زبان دانی کے جوہر دکھانے کے لیے۔‘‘
’’معاف کرنا میں ہندوستانی نہیں پاکستانی ہوں۔میں پاکستان میں پیدا ہوئی ہوں۔‘‘
’’اچھا پھر خود کو مہاجر کیوں کہتے ہو،جئیے مہاجر کا نعرہ کس نے لگایا ہے۔‘‘
’’میں اور میرا خاندان اس نعرے کے خلاف ہے ہم نے تو پاکستان بنایا ہے۔اصل پاکستانی تو ہم ہیں ۔تم لوگوں کو تو بیٹھے بٹھائے مل گیا۔قربانیاں تو ہم نے دی ہیں۔‘‘نیلما جذباتی ہو گئی۔
فضا میں سنڈی لاپر کی غم گین سی آواز ابھرنے لگی۔سب لڑکیاں خاموش ہو گئیں۔

Related posts

Leave a Comment