ڈاکٹرمحمدافتخارشفیع ۔۔۔ شاعری میں سراپا نگاری کا تہذیبی و تمدنی زاویہ

شاعری میں سراپا نگاری کا تہذیبی و تمدنی زاویہ

تہذیب، تمدن، ثقافت، کلچر چاروں اصطلاحیں ہم معنی تو نہیں لیکن ان میں بہت سے اشتراکات ہیں۔کلچر ایک نقطۂ نظر ہے، اس نقطۂ نظر کو عملی صورت تہذیب کی شکل میں دی جاتی ہے۔ ثقافت فنونِ لطیفہ کے ذریعے اظہار کی عملی صورت گری ہے لیکن اس میں طرزِ تعمیر، رہن سہن، رسوم و رواج بھی شامل ہیں۔’’ تمدن‘‘ کا تعلق زندگی گزارنے کے وضع کردہ اصولوں سے ہے۔ اس کے لیے انگریزی میں Civilization کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں اس کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
"Civilization is that kind of writing, the presence of cities and wide political organization and the development of occupational specialization”۱))
’’تہذیب‘‘ کا لفظ ’’تمدن ‘‘کے ساتھ مستعمل ہے، یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معانی تراش خراش، درستی، اور کانٹ چھانٹ کے ہیں (۲)
مفہوم اورمعنی کے لحاظ سے تہذیب ایک وسیع و بلیغ اصطلاح ہے۔ اس کے دائرہ کار میں بنیادی انسانی عقائد، مذہبی تصورات، نشست و برخاست، آداب و اخلاق، اور طرزِ معاشرت، سبھی شامل ہیں۔ تہذیب، تمدن سے زیادہ وسیع المعانی لفظ ہے۔ کسی معاشرے میں فروغ پانے والی اقدار، روایات اور رواجات دراصل اس کے افراد کے تہذیبی شعور کے مرہون منت ہیں۔ تہذیب کسی قوم کے رہن سہن میں پاس وضع کے سبب پھوٹنے والا خوشبو کا وہ جھرنا ہے جس سے اس کو عالمی سطح پر پذیرائی میسر آتی ہے۔ سید سبط حسن کے مطابق:
’’کسی معاشرے کی بامقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ہیں۔ تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اور طرز فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے۔ چناں چہ آلات، اوزار، پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے ، رہن سہن، فنون لطیفہ، علم و ادب ، عقاید و فسوں، اخلاق و عادات ، رسم و روایات ، عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ سب تہذیب کے مظاہر ہیں۔‘‘(۳)
تہذیب و تمدن کے وضع کردہ عمومی تصورات انسان کی صدیوں کی ذہنی جدوجہد کا نچوڑ ہیں۔ کسی خطے میں آباد قوم کی تہذیبی ساخت پر داخت کے پس منظر میں مسلسل ارتقائی عمل شامل ہوتا ہے۔ اس تہذیب کے نقوش واضح کرنے میں اس علاقے کے ارضی، جغرافیائی اور معاشی حالات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر کسی ملک کی معاشی حالت دگرگوں ہو، وہ جغرافیائی طور پر تبدیلیوں کی زد میں ہو اور سیاسی انتشار نے اس کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہو تو اس کے تہذیبی عناصر میں واضح تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔
تہذیب و تمدن کسی قوم کا اجتماعی طرز عمل ہے۔ اور اس کے حسن و جمال کے مجموعی تصورات بھی اسی سے طے پاتے ہیں۔ قوموں کے تہذیبی اور تمدنی خدوخال سنوارنے میں ادب بالخصوص شاعری کا بنیادی حصہ ہے۔ شاعر نہ صرف معاشرے کا اہم فرد ہوتا ہے بل کہ ایک تخلیق کار ہونے کی حیثیت سے وہ اپنی قوم کے طرز فکر واحساس کا نمائندہ بھی بن کر ابھرتا ہے۔ شاعر کی حساسیت کے ہاتھوں اس تہذیب و تمدن کی جو تاریخ رقم ہوتی ہے اسے شعر و سخن کا نام دیا جاتا ہے۔ شاعر کی تشکیل کردہ شعری کائنات میں اس کی داخلی کیفیات کا نمایاں عمل دخل ہوتا ہے۔ معاشرے کے ایک اہم فرد کی حیثیت سے داخلی کیفیات کی یہ دولت شاعر کو ان خارجی حالات و واقعات سے ملتی ہے جو تہذیب و تمدن کا لازمی جزو ہیں۔قوم کے تہذیب و تمدن کی ارتقائی منازل کو طے کرکے ایک مثالی معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ شاعر اس معاشرے کے طبقۂ اشرافیہ میں شامل ہونے کے سبب اپنے مشاہدے کی بہ دولت سے خود تربیتی کے عمل سے گزرتا ہے۔
کسی متمدن اور مہذب معاشرت میں شاعر دو حیثیتوں سے زندگی گزارتا ہے۔ معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے رشتوں کی بہ دولت جنم لینے والے حقوق اور فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ وہ قوم کا ایک ماہر نباض بھی ہوتا ہے۔اس مرحلے پر ضروری نہیں کہ اس کا اسلوب اصلاحی یا ناصحانہ رنگ اختیار کرے۔ غزل کا وہ شاعر کیسے نصیحت آموز بات کرسکتا ہے، جس کا اولین مقصد ہی ناصح پر پھبتی کسنا ہو۔ اس لیے شاعری میں معاشرتی صورت حال کی منظرکشی کے لیے سادہ انداز میں اظہار کیا جاتا ہے۔ شاعر کا وجدان زندگی کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھا کر حقائق کی جستجو کرتا ہے۔ وہ اپنی حیرت زدہ آنکھ سے ہر شے کو کسی خاص ’’آن‘‘ میں دیکھتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ شاعر اپنے معاشرے کے تمدنی اور تہذیبی عوامل سے ہی تخلیق کاری کے لیے مواد حاصل کرتا ہے۔ معاشرے کی عمارت اگر متوازن اخلاقی بنیادوں پر استوار ہے تو شاعرکا خامہ بھی معجز بیانی سے کام لیتا ہے۔ اور معاشرے کے دیوالیہ پن اور گراوٹ کا شکار ہونے کے سبب شاعری بھی محض جنسی اور بازاری موضوعات کی تشہیر بن کر رہ جاتی ہے۔
ہر مہذب معاشرے میں شخصیت کے مثالی پن کا تعین دیگر پہلوؤں کے علاوہ مثالی مرد یا عورت کے اعضائے بدن اورجسمانی ساخت سے کیا جاتا ہے۔ واضح اور خوش خط خدوخال والے لوگ ہمیشہ جاذب نظر سمجھے جاتے ہیں۔ بدن کی اپنی مخصوص جمالیات ہے، لیکن قدرتی حسن کے اوپر مشاطگی کا عمل اضافی خوبی تصور ہوتا ہے۔قدیم تہذیبوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں عورت کو موضوع بناتے ہوئے اس کے چہرے کے دل کش خطوط کے ساتھ ساتھ ان کی غازہ آرائی کا ذکر بھی کیا جاتا تھا۔ پومپائی(Pompeii) میں آئسس(Isis)کے مندر میں دیواروں پر جو نقش و نگار ثبت ہیں ان میں پرسیس (Perus) کو انڈرومیڈا(Andromeda) کا نجات دہندہ ثابت کیا گیا ہے۔ انڈرومیڈا(Andromeda) ایک حسین و جمیل دوشیزہ ہے جس کے ہاتھ پاؤں تو اوسط ساخت سے چھوٹے ہیں لیکن بقیہ اعضائے بدن نمایاں اور بھرپور ہیں۔ اس کے سراپے میں جسم کے مخفی حصوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس فن پارے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں انسانی تلذد کے معیارات انسانی جسم کے کون کون سے حصے پورا کرتے تھے۔ عورت محض جنسی تسکین کا ذریعہ تھی۔ یورپ، ایشیا اور افریقہ کی تہذیبوں میں عورت کے کولہوں (Buttocks) اورنوض (Hips)کو خوب صورتی کا پیمانہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اس میں جاپانی معاشرے کو تخصص حاصل ہے کہ وہاں چھوٹے کولہے پسند کیے جاتے تھے۔ اس کے پس منظر میں ایک اہم وجہ جسم کے خطوط کے ساتھ نسوانی پیکر کے تضادات بھی ہیں۔ تضادات شعر و سخن سے منسلک لوگوں کی دل چسپی کا سبب بھی بنے۔
ہر معاشرہ تہذیب و تمدن سے جنم لیتا ہے۔ معاشرے سے سماجی رشتے ترتیب پاتے ہیں۔ تمدن کا تعلق انسان کی ظاہری اور تہذیب کا اس کی باطنی زندگی سے ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہر لمحہ انسان کی فکر کو مہمیز کرتی رہتی ہیں۔ انسانی تہذیب ذوق کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ذوق کی تربیب کا یہ عمل شعور کے ذریعے مکمل ہوتا ہے۔ معاشرت کے ان پہلوؤں کے سبب رہنے سہنے کے آداب، کھانے پینے کے آداب، میل جول کے طریقے، رسوم و رواج، موسمی تیوہار، انفرادی و اجتماعی سرگرمیاں اور ذوقی مشاغل سامنے آتے ہیں بہ قول ڈاکٹر جالبی:
’’ادب کا اصل مذہب زندگی کو سہارا دینا، بنانا سنوارنا نیا طرز احساس عطا کرنا اور اسے نئے انداز سے مرتب کرنا ہے۔ اگر کوئی تحریر زندگی کی قدروں کی تشکیل و تعمیر میں بھرپور حصہ نہیں لیتی تو غیر معیاری ہوجاتی ہے۔‘‘(۵)
معاشرہ سازی کے عمل میں تہذیب و تمدن کا بنیادی حصہ ہے۔ جغرافیائی ، دینی، نسلی اور تاریخی عوامل کی مدد سے شاعر اور ادیب معاشرے کی ذہنی تشکیل کے ساتھ ساتھ حسن کے معیارات بھی وضع کرتے ہیں۔ دنیا کی ہر تہذیب اور تمدن میں خوب صورتی کے اپنے معیارات ہوتے ہیں۔ معاشرت کے تضاد کے باعث حسن کے یہ معیارات مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ معیارات کسی خطے کی مخصوص فضا میں جنم لیتے ہیں اور شاعری کے مضامین بھی انھی معیارات کی روشنی میں تخلیق ہوتے ہیں۔ عراق، مصر، چین، یونان، ایران اور ہند کی قدیم تہذیبوں میں انھی تضادات کے سبب خوب صورتی کے معیارات بھی مختلف تھے۔ مذکورہ بالا تمام تہذیبوں میں مصوری، سنگ تراشی، رقص اور شاعری کے علاوہ دیگر فنون لطیفہ کو خاصی اہمیت تھی۔ اس سے بنی آدم کے فکری و ذوقی اشتراک کا ثبوت ملتا ہے لیکن چوں کہ انسانی تہذیبوں کو مختلف صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا تھا اس لیے ان کے تضادات کے سبب اظہار کی مختلف صورتیں سامنے آئیں۔
سراپاے محبوب کے ضمن میں محض آنکھوں کو دیکھیں تو عربی و فارسی شاعری میں بڑی بڑی سیاہ آنکھوں اور بھوؤں کو حسن کا معیار تسلیم کیا جاتا ہے، جب کہ چینی شاعری میں چھوٹی آنکھوں اورباریک بھوؤں کو شاعری کا موضوع بنایا گیا ہے۔ اہل یورپ اس کے برعکس سبز اور نیلی آنکھوں کو پسند کرتے ہیں۔ نشاۃ ثانیہ کے شاعروں کے ہاں محبوب کے حسن کے بیانیے میں جہاں آنکھوں کا ذکر آیا ہے تو شاعری کا موضوع سبز آنکھیں بنی ہیں۔ ہیولاک ایلس(Hewelock Ellus) ایک جگہ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ان تضادات کی مزید وضاحت کچھ یوں کرتا ہے:
’’سولہویں صدی کے آغاز میں بران قوم (Brantome) کے ہم عصر فرانسیسی، ہسپانوی اور اٹلی کی شاعری سے کچھ مصرعے اقتباس دیے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ عورت کی جلد سفید ہونی چاہیے، مگر آنکھیں اور بھویں
سیاہ۔۔۔ بعض اوقات گہرا رنگ بھی بھورا رنگ ہی ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اسپین کی شاعری میں سبز آنکھوں کو بہت سراہا گیا ہے۔ مثلاً کیلس ٹینا (Celestine) کے پہلے ایکٹ میں سپین کے مخصوص حسن کو بیان کرتے ہوئے کرون ٹیز(Cervantes) مثال کے طور پر جب عورت کی خوب صورت آنکھوں کا حوالہ دیتا ہے تو عام طور پر ان کو سبز ہی بناتا ہے۔‘‘(۶)
اس طرح کے اظہار پسندیدگی کی گنجائش ایشیائی تہذیبوں میں اس لیے ممکن نہیں کہ ان خطوں میں سبز اور نیلی آنکھوں والے لوگ محدود تعداد میں ہیں، ان کے حوالے سے کوئی مضبوط روایت قائم نہ ہوسکی اور اگر ہوتی بھی تو اساطیری کہانیوں اور اجتماعی نوعیت کے معاشرتی توہمات اس پسند کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آتے۔
انسانی اعضا کی خوب صورتی کا تعین کرتے ہوئے اس معاشرتی حقیقت کو دیکھنا بھی ضروری ہے کہ تاریخی حوالوں سے اعضاے بدن کو نقش و نگار سے آراستہ کرکے جسم کی خوب صورتی کو نمایاں کرنے کا رواج موجود تھا۔ جہاںکسی کے خوب صورت پیروں کی تعریف کی گئی ہو تو ممکن ہے دیکھنے والے نے محض ایک خوب صورت جوتا دیکھا ہو، یا کمر کی تعریف کے پس منظر میں قیمتی اور رنگین کمر بند کا عمل دخل ہو، بعض اوقات معاشرے کا نچلا طبقہ شاعروں اور ادیبوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ عام تصورِ جمال سے ہٹ کر مسخ شدہ اورمریضانہ قسم کی منظر کشی کریں۔
ہر معاشرے کے عام فرد کے لیے وہ عورت یا مرد حسن کا معیاری پیکر ہوتے ہیں جو اس کے بنائے گئے اصولوں پر پورا اترتے ہیں۔ ایشیائی تہذیبوں میں عورت کی آنکھیں نمایاں اور واضح ہوتی ہیں، اس پر غازہ آرائی اس خصوصیت میں اضافہ کردیتی ہے۔ حتیٰ کہ جسمانی عیب بیان کرنے کا ماخذ بھی کسی نسل کے خاص ذوق کی نشان دہی کرتا ہے۔
شاعر ایک معروضی نقطۂ نظر سے بدن کی جمالیات کو خاص زاویے سے دیکھتا ہے۔ عورت کی حسن آمیزی کے تذکرے میں وہ حسن کے مثالی پن کو تشکیل دیتا ہے۔ یہ عمل محض ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں تہذیب اور تمدن مکمل طور پر موجود ہوں، اس سلسلے میں بنیادی طورپر تین تشکیلی عناصر ہوتے ہیں:
۱۔ عمومی خوب صورتی کا ذکر
۲۔ اعضا کی بھرپور جوانی کی جمالیات
۳۔ جنسی سراپا نگاری اور غلو
ان میں سب سے اہم سراپا نگاری کا وہ عنصر ہے جو شاعر کے نسلی یا قومی شعور کے ساتھ تشکیل پاتا ہے۔ شاعر کا انفرادی ذوق بھی اس پر نہایت قوی اثر ڈالتا ہے۔ ایک مثالی شکل و شباہت والے محبوب کی تصویر ہر انسان کے ذہن میں موجود ہوتی ہے۔ یہ تصویر بنانے میں اس کے مخصوص ذوق اور طلب کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ شاعر معاشرے کے اہم مشاہدہ بیں کی حیثیت سے تخصص رکھتا ہے۔ کبھی وہ محبوب کے اعضائے بدن کی تعریف میں غلو سے کام لیتا ہے۔ کبھی اس کی عام سی توصیف کرتا ہے، کبھی علم بیان و بدیع کی مدد سے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ اظہار کرتا ہے۔ اس کی سراپا نگاری کی متنوع صورتیں ہوتی ہیں۔
شکل و شباہت کے بیان کی عمومی صورتوں سے ہٹ کر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جسمانی خدوخال کے ساتھ ساتھ نشست و برخاست، اندازِ گفتگو، چال ڈھال وغیرہ بھی ہر انسان کی انفرادی حیثیت کو واضح کرتے ہیں۔ یہی چیزیں فرد کو معاشرے کے دیگر افراد سے علاحدہ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض تہذیبوں میں سراپاے محبوب کی انفرادی صورتوں کو اہمیت حاصل ہے، جیسے:
’’مقامی خوب صورتی کی تشکیل کے لیے ایک اور عنصر کی ضرورت بھی ہوتی ہے مگر یہ عنصر صرف مہذب معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ بعض غیر معمولی دور دراز (Remote) اور انوکھا پن (Exotic) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کم یابی کو حسن میں شمار کیا جاتا ہے مگر یہ بات سو فی صد درست نہیں۔ البتہ التزامات (Combinations) اور چال چلن کا اسلوب مستثنیٰ ہے۔‘‘(۷)
جو شے عام طورپر معاشروں میں پسندیدہ سمجھی جاتی ہے ، اسی کا رواج پڑجاتا ہے۔تہذیب و تمدن کے بطن سے جنم لینے والے اضطراب اور بے چینی سے اس میں مبالغہ آرائی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
ہر تہذیب میں حسن و جمال کے تصورات ایک خاص انفرادیت کے حامل ہوتے ہیں اور یہی اس تہذیب کی خصوصیت ہے۔ سراپا نگاری کے تہذیبی و تمدنی پہلووں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مرد یا زن کا پیکر کسی حد تک اس معاشرت سے تعلق رکھتا ہے۔ مرد کے لیے نسائی حسن کیا عمومی حسن کے معیارات پر پورا اترتا ہے اور کسی خاص نسلی یا قومی خوبیوں کا مجموعہ ہے یا نہیں۔ ہر فرد تہذیب و تمدن کے دائرے میں اپنے لیے ایک مثالی سراپا بناتا ہے۔ یہ سب اس کے نظام اورضروریات کے تحت ہوتا ہے۔ سراپا نگاری کے اس تہذیبی و تمدنی زاویے میں جنسی ہدف کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جنسی ہدف کو پورا کرنے کی کوشش میں سراپا نگار ایسے خدوخال کو بھی اہمیت کے قابل سمجھتا ہو جو عام طور پر حسین ہونے کی بجائے قبیح ہوں۔

حوالہ جات
۱۔ Encylopedia Britannica, London: V.E.T. Wilum Benth, 1968, P 830
۲۔ سبط حسن، سید، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا ، کراچی: کتب پرنٹرو پبلشرز، ۱۹۷۵ء، ص ۳۱
۳۔ سبط حسن، سید، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا ، ص ۵۳
۴۔ سبط حسن، سید، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا ، ص ۵۳
۵۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر، ادب کلچر اور مسائل، کراچی: رائل بک کمپنی، ۱۹۸۶ء، ص ۱۴۱
۶۔ ہیولاک ایلیس، ’’کون سی شے عورت کو خوب صورت بناتی ہے‘‘،مترجم، شہزاد احمد، سہ ماہی ، زرنگار، فیصل آباد، شمارہ۵، ۲۰۱۱ء ،ص ۱۱۴
۷۔ ہیولاک ایلیس، ’’کون سی شے عورت کو خوب صورت بناتی ہے‘‘، مترجم، شہزاد احمد، سہ ماہی ، زرنگار،شمارہ ۵، ص ۱۱۶

میں نکل آتا ہوں بازار کے سناٹے میں
گھر میں تو خوف کا احساس نہیں رہتا ہے

میں خود کو چھوڑ کے پھر آگیا ہوں دفتر میں
ترا خیال بھی آیا نہ کام کرتے ہوئے

حصار ریگ میں برسوں جلا تھا میرا وجود
سو ایک دشت مرا ہم خیال ہوگیا ہے
ہرشے ہے یہاں صورت مہتاب افق تاب
اس رات کے پردے میں نہاں کچھ بھی نہیں ہے
اسی زندگی میں پلٹ کے آنا ہے ایک دن
سو میں کوئی سانس ادھر ادھر نہیں کررہا

Related posts

Leave a Comment