ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ۔۔۔۔ قلی قطب شاہ کی مذہبی شاعری

محمد قلی قطب شاہ( 1565-1611)سلطنت گولکنڈہ کا پانچواں فرماں رو اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر گذرا ہے۔ بہت کم عمر پائی۔ کم عمری میں سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی لیکن اس کے دیوان پر نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس کا دیوان پچاس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ جس میں غزل ‘ قصیدہ‘ مثنوی‘ رباعی‘ مرثیہ وغیرہ تمام اصناف سخن پر طبع آزمائی کی گئی ہے۔ جہاں تک غزلوں کی تعداد کا تعلق ہے محمد قلی دکنی اردو کا سب سے اہم شاعر قرار پاتا ہے۔ محمد قلی کے کام کی سب سے اہم خصوصیت سادگی بیان ہے اس نے اپنے جذبات‘ احساسات اور تجربات زندگی کو سادگی ‘ روانی اور حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ محمد قلی کی شاعری گویا اس کی زندگی کا آئینہ ہے جس میں اس کے واقعات حیات کی متحرک تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس نے اپنی خانگی سماجی اور سیاسی زندگی کے تجربات کو اپنے کلام میں بے کم و کاست بے نقاب کیا ہے۔ محمد قلی قطب نے عید ملاپ‘ شب معراج‘ شب برات جیسے موضوعات پر بھی نظمیں لکھی ہیں اور بسنت‘ دیوالی اور ہولی پر بھی۔ لیکن ساری تقاریب‘ خواہ و مذہبی نوعیت کی ہوں یا موسمی تہواروں کی محمد قلی کے لیے عیش و عشرت کے ایک تازہ عنوان کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ نبیؐ اور علیؓ کے صدقے سے دن رات عیش کرنے کے مواقع حاصل ہوئے ہیں۔

محمد قلی قطب شاہ کے دیوان میں مذہبی شاعری کا بھی ایک بڑا حصہ موجود ہے۔ اس کے دیوان میں حمد۔ نعت۔ منقبت۔ مدح بی بی فاطمہ۔ شاعر کا مذہب۔ مکھ جوت۔ سجن کا نور۔ مناجات۔ عید میلاد النبی۔ میلاد النبی کا جشن۔۔ عید بعثت نبی۔ شب معراج۔ عید سوری۔ عید مولود علی۔ عید غدیر۔ شب برات۔ شب برات کی آتش بازی۔ شب برات کی خوشی۔ شب برات کی روشنی۔ شب برات اور چندر مکھی۔ کونلی اور شب برات۔ کھن پر ہلال۔ عید رمضان۔ روز عید اور نوا انعام۔ بقر عید۔ نوروز۔ بسنت۔ پوریوں کی عید۔ عید اور موسیقی۔ عید کی مسرت وغیرہ مذہبی مواقع سے متعلق نظمیں اور غزلیں ہیں۔ محمد قلی کے دیوان میں تہذیبی و معاشرتی رنگا رنگی ہے۔ اور اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہونے کے باوجود اس کے کلام میں موضوعات کی جدت اور ندرت اور رنگا رنگی اس بات کی غماز ہے کہ وہ ایک فطری شاعر تھا۔ اور اس نے ایک حقیقی حکمران ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی رعایا کے عیدوں تہواروں اور زندگی کے مختلف مواقع کا بیان اپنی شاعری میں کر دیا۔ جہاں تک محمد قلی قطب شاہ کی مذہبی شاعری کا معاملہ آئیے دیکھیں کہ شاعر کے کیا حالات تھے جس کے سبب اس نے زندگی کے دیگر مواقع کے ساتھ مذہب اور اس سے متعلقات کے بارے میں اتنی تفصیلی شاعری کی۔ محمد قلی قطب شاہ کی مذہبی شاعری میں ایک غزل بعنوان ’’ شاعر کا مذہب‘‘ کے عنوان سے ملتی ہے۔ اس نظم کے اشعار اس طرح ہیں۔

دو جگ منے منج کوں اہے کرتار معاذ

بندا ہوں اسی کا وہی برٹھار معاذ

امت ہوں محمد کا کروں شکر خدا

تو ہے منجے جم احمد مختار معاذ

پایا ہوں ملک کوٹ انن پیار تھے میں

منج کوں ہے سدا حیدر کرار معاذ

پنجتن کا منجے داس کیا پیار تھے حق

پنجتن ہیں ازل تھے منجے ہر بار معاذ

اللہ محمد علی ہور گیارہ امام

یو سب اہیں قطباؔ کے سو آپار معاذ (کلیات محمد قلی قطب شاہ۔ ص۔ 311)

مندرجہ بالا اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کا تعلق مذہب امامیہ اثنائے عشری تھا۔ جسے شیعہ مذہب کہا جاتا ہے۔ جو عموماً قطب شاہی سلاطین کا عقیدہ رہا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کے دیوان مرتبہ پروفیسر سیدہ جعفر میں محمد قلی قطب شاہ کے مذہبی عقائد کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور اس ضمن میں لکھا گیا کہ محمد قلی اور دیگر قطب شاہی فرماں روا شیعہ اثنائے عشری عقیدے کے حامل تھے۔ محمد قلی کے مشیر خاص اور وزیر سلطنت میر مومن شیعہ تھے۔ حیدرآباد دکن کی زیادہ آبادی سنی مسلمانوں کی تھی اور ایران اور ترکستان سے لوگوں کا عقیدہ شیعیت تھا۔ تاہم محمد قلی کے مذہبی عقیدے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اثنائے عشری کا عقیدہ اختیار کیا۔ وہ اس کا آبائی عقیدہ نہیں تھا۔ اس ضمن میں پروفیسر سیدہ جعفر رقم طراز ہیں:

’’ قطب شاہی تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان بادشاہوں کا مذہبی رجحان شیعیت کی طرف تھا۔ محمد قلی نے اپنے اشعار میں امامیہ مذہب کو اپنا مذہب نہیں بتایا ہے۔ بلکہ وہ اس کو اپنا اختیار کردہ مذہب قرار دیتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ میں نے اپنا دین چھوڑ کر اس مسلک کو اختیار کیا۔۔ محمد قلی کے بعض اشعار سے شبہ ہوتا ہے کہ وہ بچپن میں اثنا عشری عقائد کا پیر و نہیں تھا۔ اس کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابراہیم قطب شاہ ایک وسیع المشرب شخص تھا۔ دوسرے اس نے قطب شاہی تخت و تاج کو بعض ہندوؤں اور سنی مسلمانوں کی مدد سے حاصل کیا تھا۔۔ اس کی بیگمات میں سے ایک ہندو بھی تھی اور اس سے بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کسی خاص مسلک کا پابند نہ تھا۔ ان حالات کے پیش نظر ممکن ہے بچپن میں محمد قلی کو شیعہ عقائد کی تعلیم نہ دی گئی ہو اور ابتداء میں وہ کسی خاص عقیدے کا پابند نہ رہا ہو اور بعد میں اس نے اثناء عشری مسلک اختیار کیا ہو‘‘۔ ( پروفیسر سیدہ جعفر۔ کلیات محمد قلی قطب شاہ۔ مرتبہ۔ دہلی1985۔ ص۔ 43-45)

محمد قلی قطب شاہ کے مذہبی عقائد کے بارے میں مندرجہ بالا بتوں کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ رعایا کا دل جیتنے کی خاطر اس دور میں سلاطین جس طرح وسیع المشربی کا اظہار کرتے تھے اسی طرح محمد قلی قطب شاہ نے بھی سنی شیعہ عقائد کا یکساں لحاظ رکھا۔ اور اپنی شاعری میں مذہب اسلام کی تمام تہذیبی روایات کی عکاسی کی۔ اردو کے اکثر شعرا نے اپنے دیوان کے آغاز میں حمد و نعت رکھی ہے۔ یہ مسلمانوں کی تربیت رہی ہے کہ اللہ نے انہیں جو نعمتیں دی ہیں اس کے اظہار کے لئے اپنے خالق کی تعریف بیان کی جائے۔ اور اس کے ساتھ پیغمبر اسلام کی مدح سرائی کی جائے۔ تاکہ عبدیت اور عشق نبیﷺ کا بھر پور اظہار ہو۔ شعرا کو اندازہ تھا کہ انہیں شاعری کی شکل میں اظہار خیال کی جو نعمت حاصل ہوئی ہے وہ اللہ کا انعام اور نبیﷺ کا صدقہ ہے۔ اس لئے اردو کے اکثر شعرا نے اعلیٰ پائے کی حمد اور نعت کہی ہے۔ محمد قلی کے کلام میں حمد کے عنوان سے چار غزلیں ہیں۔ جن کے منتخب اشعار اس طرح ہیں۔

حمد:    تج نام منج آرام ہے منج جیو تج کام ہے

سب جگ کوں تج سوں کام ہے تج نام جپ مالا ہوا

بندا ہوں گنہ گار خدا میراہ گنہ بخش

تج لطف کیرا فیض خدا منج کوں سدا بخش

معانی کے سو میلے کپڑے نا دیکھو کہ عاشق ہے

سو کپڑے کاڑ کے دیکھو کہ پکڑیا ہے تمن در کوں

تُہیں جگ کا سامیا یا حفیظ

تُہیں جگ کوں سر جائیا یا حفیظ

جو کوئی ہیں درماندے ان کوں سدا

تُہیں کرنے ہارا دیا یا حفیظ

مندرجہ بالا حمدیہ اشعار کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمد قلی اپنے رب کی تعریف کرتا ہے۔ اور ایک بڑی سلطنت کے حکمران ہونے کے باوجود اسے احساس ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر وہ کچھ نہیں۔ اس لئے وہ یا حفیظ کہتا ہوا خدا کو سب کا پالن ہار اور مصیبتوں کو دور کرنے والا کہتا ہے۔ اس کی حمد کے دیگر اشعار میں بھی خدا کی بڑائی کے بیان کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل کے حل کے لئے خدا کی مدد طلب کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ نعت کے اشعار میں محمد قلی قطب شاہ نے کھل کر پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیﷺ کی تعریف کی ہے۔ ملاحظہ ہو چند اشعار:

نعت:

تج مکھ اجت کی جوت تھے عالم دیپن ہارا ہوا

تج دین تھے اسلام لے مومن جگت سارا ہوا

یک لک اسی پیغمبران اپجے جگت میانے ولے

تج پر نبوت ہے ختم سب تھے توں ہی پیارا ہوا

اسم محمد تھے اہے جگ میں سو خاقانی مجھے

بندہ نبی کا جم رہے سہتی ہے سلطانی مجھے

چاند سورج روشنی پایا تمارے نور تھے

آب کوثر کوں شرف تھڈی کے پانی پور تھے

دیا بندے کوں حق نبی کا خطاب

حکم دے دیا نور جوں ماہتاب

محمد قلی قطب شاہ نے ان نعتیہ اشعار میں نعت گوئی کے آداب کا پاس و لحاظ رکھا۔ اور سیرت پاکﷺ کے مختلف گوشوں کی طرف اشارے کئے۔ اور آپﷺ کی عظمت اور بڑائی بیان کی۔ محمد قلی قطب شاہ کی مذہبی شاعری کا شاہکار اس کی مناجات ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب اس نے شہر حیدرآباد کی بنیاد رکھی تھی تو اللہ کے حضور یہ دعا کی تھی کہ اے خدا میرے اس شہر کو لوگوں سے ایسا آباد کر جیسے دریا میں مچھلیاں ہوتی ہیں۔ شاید وہ قبولیت دعا کی گھڑی تھی کہ اس کا بسایا شہر ایسا آباد ہوا کہ آج ساری دنیا میں شہر حیدرآباد تمدنی اعتبار سے ایک بڑا شہر مانا جاتا ہے اور اس کی آبادی کئی لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ دعا بندگی کی شان ہوتی ہے۔ اور اس سے بندے کی عاجزی کا اظہار ہوتا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ بادشاہ وقت ہونے کے باوجود کیسے خدا کے حضور دعا گو ہے ملاحظہ ہو مناجات میں:

مناجات:

مناجات میرا تو سن یا سمیع

منجے خوش توں رک رات دن یا سمیع

بھلا کر بھلا منج سوں جو ہوئے گا

برا کر برا منج سوں جن یا سمیع

میرے دوستاں کو نت دے جنت

میرے دشمناں کو اگن یا سمیع

آباداں کر ملک میرا سوتوں

ایسا سوتوں دے میرا سن یا سمیع

سکل تخت پر میرا یوں تخت کر

انگوٹی پہ جوں ہے نگیں یا سمیع

میرا شہر لوگاں سوں معمور کر

رکھیا جوں توں دریا میں من یا سمیع

مرادت کا جم ترنگ سار قطبؔ

اوسی سا رہت دے عنیں یا سمیع

اس مناجات میں محمد قلی قطب شاہ نے اپنی اور اپنی رعایا کی خوشحالی اور سلطنت کے تحفظ کی دعا کی ہے۔ اور اس دعا سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ سے جامع دعا مانگنا چاہئے چھوٹی بتوں کی نہیں۔ اس دعا میں شاعر کی ذہانت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں سے تحفظ چاہتا ہے۔ اور اپنی سلطنت کی شہرت بھی۔ بہر حال یہ مناجات محمد قلی قطب شاہ کی مذہبی شاعری کی ایک شاہکار نظم ہے جو غزل کے فارم میں لکھی گئی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کی مذہبی شاعری کا ایک اہم حصہ میلاد النبیﷺ کے عنوان سے کہی گئی نظموں کا ہے۔ شاعر کے اس موضوع پر اظہار خیال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی مسلمانوں میں میلاد النبیﷺ کو عید کے طور پر منانے کا چلن تھا جو کہ اہل سنت مسلمانوں کا خاص وطیرہ ہے کہ وہ اپنے نبی کی بعثت کے دن پر خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں۔ میلاد النبیﷺ کے موضوع پر محمد قلی کے منتخب اشعار ملاحظہ ہوں۔

میلاد النبیﷺ:

خوشیاں کرو موالیاں مبعث رسول آیا

بہو دھات انند سوراں عیشاں سنگت لیا یا

مبعوث کی خوشیاں تھے حوراں کئے جو خوشیاں

جنت کی خوشبویاں تھے جو جگ مگایا

مصطفی مبعث خوشیاں کے عید کا ہے دیس آج

صدقے حضرت شیعہ کرتے ہیں گھرے گھر عیش آج

نبی مبعوث بھی آ کر کیا ہے سب جہاں روشن ہوا

اس دن کے نوراں تھے مکاں ہور لا مکاں روشن

ان اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ دکن میں میلاد النبیﷺ کی عید عوام اور بادشاہ سب بڑے اہتمام سے مناتے تھے۔ محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں دیگر مذہبی ایام سے متعلق با عنوان کلام ہے جو شاعر کے گہرے مشاہدے اور موضوع سے متعلق اپنی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ ذیل میں مختلف عنوانات کے تحت کہی گئی شاعری سے منتخب اشعار پیش کئے جا رہے ہیں۔

یک کرامت انو کا نیں کسی پیغمبر میں

سب نبیاں میانے ہمارے ہی نبی سہتے معراج( شب معراج)

سب ہی عیداں میں اتم عید سوائے عید سوری ہے

نبی صحت جو پائے عید میں او عید پوری ہے ( عید سوری)

مومناں خوشیاں کرو ہے آج دن مولود کا

مرتضیٰ بارہ اماماں عید ہے معبود کا ( عید مولود علی)

خدا کے کرم سیتی شبرات آیا

خوشیاں کا اجالا جگت میں دکھایا (شب برات)

آیا ہے عید کا چند پھر چرخ بام ساقی

لیا یا ہے آج کی نس خوشیاں پیام ساقی( عید رمضان)

خوشی خبراں سنایا عید بکرید

کہ قرباں ہونے آیا عید بکرید ( بقر عید)

مندرجہ بالا اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمد قلی نے اپنی سلطنت میں ہونے والی تمام عیدوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور ان کے مشاہدات کو اپنی شاعری میں پیش کیا۔ محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں مذہبی رنگ ہونے کی ایک بڑی مثال اس کی تمام شاعری میں مقطعوں میں نبی اور قطب کے صدقے کا ذکر ہے۔ شاعر رنگین مزاجی کا ذکر کرتا ہو یا اپنی کسی محبوبہ کا یہ کسی نعمت کے ملنے کا وہ اپنی غزل کے آخر میں اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ نبیﷺ اور قطب کے صدقے میں یہ چیز حاصل کر پایا ہے۔

نبی صدقے پایا ہے جنت کی حور

محبت قطبؔ کر خوشیاں سوں توں راج

نبی صدقے قطبؔ عاشق ہے تیرا

سدا مل اچھ نہو یک تل بی نیارا

نبی صدقے قطبؔ کے شعر کی بحراں میں سب بازی

اگرچہ شاعراں باندے ہیں شعراں لئے بحوراں میں

محمد قطبؔ شہ بندہ ہے علی کا

علی آپ صدقے دو جگ میں بچایا

محمد قلی قطب شاہ کے تقریباً تمام مقطعوں میں نبی صدقے کا ذکر ملتا ہے۔ اس طرح اس نے اپنی شاعری اور فن کو نبی کا صدقہ قرار دیا۔ جو محمد قلی جیسے عیش پرست شاعر کے مزاج کے دوسرے رخ کو ظاہر کرتا ہے۔ اور بہ یک وقت حسن پرست عیش پرست شاعر اور حکمران ہونے کے مذہبی طور پر خدا سے مدد چاہنے والا اور نبی کے صدقے اپنی زندگی کے کام بنانے پر یقین رکھنے والے شاعر کے طور پر سامنے آتا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کی شخصیت اور شاعری کے یہ دو متضاد پہلو اسے ہمہ مزاج شخص کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جو عہد حاضر کے شاعروں کے لئے ایک نئی بات ہے۔

Related posts

Leave a Comment