جلیل عالی ۔۔۔ باغِ گلِ سرخ ( افتخار عارف)

مضبوط بندش اور روایت کے تخلیقی تسلسل کے ممتاز شاعر جناب افتخار عارف کا تازہ شعری مجموعہ "باغِ گلِ سرخ” موصول ہوا۔افتخار عارف اپنے فکری و تہذیبی تشخص کی کلیت میں جیتے اور شعر کہتے ہیں۔ان کے کلام اور ان کی شخصیت میں کہیں دوئی کا شائبہ نہیں ہوتا۔ قدرت نے انہیں فکر و احساس اور زاویۂ نگاہ کے ایسے توازن سے نواز رکھا ہے کہ انہیں کسی پہلو سے معذرت خواہی کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ وہ ایک صاحبِ واردات شاعر ہیں اور حضرت علی رض کے اس قول پر یقین رکھتے ہیں کہ
"جو الفاظ دل سے نکلتے ہیں وہ دل میں جگہ پاتے ہیں۔”
ان کی ہر غزل اور نظم اپنے پورے تخلیقی جواز کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اترتی ہے۔ذوقِ اصیل رکھنے والا قاری بہ آسانی اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ شاعری قدرتِ کلام کے مظاہرے کی پیداوار نہیں شاعر کے بے ساختہ بہاؤ اور داخلی دباؤ کی دین ہے۔ایسی شاعری اپنے تخلیق کار کے فکری و اسلوبی دستخطوں سے خالی نہیں رہ سکتی۔
اس مجموعے کے چند اشعار بھی میری معروضات کی تصدیق کو کافی ہیں۔

یہ سر اٹھائے جو میں جا رہا ہوں جانبِ خلد
مرے لیے مرے آقا نے بات کی ہوئی ہے

کچھ اعتبار اگر ہے تو حرفِ خیر کا ہے
جز اس کے اور سخن جاوداں کوئی نہیں ہے

دل کی وحشت کا اثر کم ہو تو شاید ہاتھ آئے
خس و خاشاک کے موسم میں سراغِ گلِ سرخ

اُتاقِ کنگرۂ عرش کے چراغ کی لَو
کسی گلی کے فقیروں کے ساتھ رقص میں ہے
کسے مجال کہ جنبش کرے رضا کے بغیر
جو رقص میں ہے اجازت کے ساتھ رقص میں ہے

لہجے کی تلخیوں سے نمایاں ہے دل کا زہر
اندر کے سارے خوف زبانوں میں آئے ہیں
گرد و غبارِ وقت سے الجھے ہیں ایک عمر
تب جا کے عکس آئنہ خانوں میں آئے ہیں

نظر ہو دیکھنے والی تو دیکھ لیتی ہے
زمینِ سنگ میں امکانِ رنگ و بو کیا کیا
سمندر آتے ہی کیسی ہوئی ہے نرم خرام
چٹانیں چیر کے آئی تھی آبجو کیا کیا

کبھی میں سارے زمانے کو میسر آیا
کبھی یوں بھی ہوا خود کو بھی نہ حاصل ہوا میں

شہر آشوب کے لکھنے کو جگر چاہیے ہے
میں ہی لکھوں تو لکھوں کوئی نہیں لکھے گا

کاروبارِ عشق بھی فضول
خبطِ آگہی بھی رائگاں
نظمِ فیض جنسِ کار و بار
نثرِ یوسفی بھی رائگاں
شاعرِ زبانِ بے زمین
تیری شاعری بھی رائگاں

بہم ہوئے ہیں ذرا دیر کو تو خوش ہو لیں
کسے خبر کہ بچھڑ جائےکون ، کب مری جان
الجھ رہی ہے خود اپنے ہی شب چراغوں سے
ہوائے شہر ہوئی کیسی بے ادب مری جان
مرے قلم ،مرے منبر، مرے علم ،مری تیغ
ملے ہوئے ہیں حریفوں سے سب کے سب مری جان

غروب ہوتا ہوا آفتاب پلٹا دیں
وہ صاحبانِ تصرف جو اک اشارہ کریں

یہاں میں نے عشق کیے ہیں خاک اڑائی ہے
یہ جو دشت ہے مجھے اپنے گھر سے زیادہ ہے

کتنا ویران ہوا ہوں تری ہجرت کے سبب
اے مری آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو مجھے دیکھ
جیسے میں مصرعِ تازہ کی طرف دیکھتا ہوں
کبھی فرصت ہو تو تُو بھی اسی پہلو مجھے دیکھ

زندگی جھیل چکے ، کھیل چکے سارے کھیل
اب تو زندانِ تمنا سے نکلیے صاحب

مشکلیں آتیں تو نعمت میں بدل جاتی تھیں
میرے اطراف دعاؤں کا حصار ایسا تھا

کچھ دن سے عجب ایک کمال آیا ہے مجھ میں
پڑھتا ہوں جو دیوار پہ لکھا نہیں ہوتا

گرد و غبارِ شہر کو وقت نے آئنہ کیا
کھل کے بیان کر دیا کون گہر، خزف ہے کون

زمینِ فردِ فرید، آسمانِ مہرِ منیر
کس اہتمام سے کرتے ہیں گفتگو مجھ میں
بکھر بکھر کے مرتب ہوا ذخیرۂ خواب
اجڑ اجڑ کے بسا شہرِ آرزو مجھ میں

اب کوئی آئے کہ نہ آئے ، کوئی صف آرا ہو کے نہ ہو
میرا کام اذاں دینا تھا یارو میں نے اذاں دے دی

وہ خوابِ مسترد جو معتبر تھا اہلِ دل میں
اسی کے نام پر ساری سیاست ہو رہی ہے

دور کہیں وہ جاگتی آنکھیں اندھیاروں میں ڈوب گئیں
طاقِ دعا میں ایک دِیا تھا وہ بھی ہوا کی نذر ہوا

Related posts

Leave a Comment