احمد حسین مجاہد ۔۔۔ میں

مَیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ برس دو برس تک مرا نام ایلان کردی رہا ہے مگر اب مرے سینکڑوں نام ہیں میں فلسطین کا مصطفیٰ ہوں پشاور کا گُل شیر ہوں میں نے بڈگام میں جان دی تھی مری قبر بغداد میں ہے کہیں میں روہنگیا کہیں میں ہزارہ کہیں پنڈتوں میں گھرا محض اک آدمی ہوں پشاور کے اسکول میں جو عبارت مرے خوں سے لکھی گئی اس کے معنی کسی پر نہیں کھل سکے مجھ پہ کابل کی مسجد میں اس وقت حملہ ہوا جب میں سجدے میں تھا شام کی…

Read More

نوید صادق ۔۔۔ غیر مکمل نظمیں

غیر مکمل نظمیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دفتر کے ہنگامے بھی کچھ کم تو نہیں ہیں لیکن گھرکا سناٹا تو جاں لیوا تھا اند ر باہر ہونکتے سائے تنہائی کے مارے گھر کی دیواروں میں دفن خرابے بولتے ہیں خوابوں کی جو قیمت آپ چکا بیٹھے ہیں راشد صاحب! آپ اداکاری میں کتنے یکتا تھے لیکن سالامانکاشاید۔۔۔! آپ سے تھوڑا آگے تھی بات بہت لمبی ہے لیکن میں اس دفتر میں نوکر ہوں میری ذمہ داریاں ۔۔۔۔۔ میری ساری نظمیں ۔۔۔۔ اب تک غیر مکمل ہیں

Read More

نوید صادق ۔۔۔ سونا چاہتا ہوں

سونا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی تم مجھ سے دور چلے جاؤ گے پہلے کم اُلجھیڑے ہیں جو چاروں اور دھمالیں ڈالتے پھرتے ہیں پہلے پہل مَیں سوچتا تھا اِس دنیا میں میں ہوں، میرے بعد بھی میں ہوں لیکن ! وقت کے اپنے چکر ہیں چکرا دیتے ہیں آدمی نام اور کام کے چکر کو رہ جاتا ہے صرف کہانی چلتی ہے اچھا !تم بھی خوب سمجھتے ہو اِن جھگڑوں کو دریاؤں کا پانی شہر میں داخلہ چاہتا ہے خاموش! ہمارے آنگن میں اِک چڑیا پر پھیلائے…

Read More

ماجد صدیقی ۔۔۔ اُس نے جو ہشیار تھا ، دیکھا چھین لیا

اُس نے جو ہشیار تھا ، دیکھا چھین لیا ہاتھ میں بچّے کے تھا کھلونا چھین لیا سادہ لوح نے جو کچھ سینت کے رکھا تھا مکر نے اپنا ہاتھ دکھایا چھین لیا باپ سا دست نگر اُس کو بھی بنانے کو بنیے نے طفلک سے بستہ چھین لیا یہ بھی ہُنر ہے جو حاصل ہے جابر کو شاہیں نے چڑیا سے جینا چھین لیا عزّت داروں سے ماجدِ زور آور نے جتنا زعم اُنہیں تھا سارا چھین لیا

Read More

توقیر عباس ۔۔۔ دور پیڑوں کے سائے میں

دور پیڑوں کے سائے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دور پیڑوں کے سائے میں حرکت، مسلسل مرا دھیان اس کی طرف اوردل میں کئی واہمے دل کی دھڑکن میں دھڑکیں کئی گردشیں اور میں ہشت پائے کے پنجے میں جکڑا گیا عجب خوف پیڑوں کے سائے میں پلتا ہوا اک تحرک جو کھلتا نہیں اور میں منتظر جو بھی ہونا ہے اب ہو اور اب ایک آہٹ نے دہلادیا بہت دھیمی آہٹ اجل نے چھوا ہو کہ دنیا اندھیرے میں ڈوبی کہیں دور خوشبو میں مہکا سویرا تحرک کی ہچکی سنی اور ہر…

Read More

فیصل ہاشمی ۔۔۔ نظم ساتھ دیتی ہے

نظم ساتھ دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بارشیں نہ آئیں تو پیڑ سوکھ جائیں تو کھیتیاں نہ بچتی ہوں کھیتیاں بچانی ہوں نظم ساتھ دیتی ہے رات کی روانی میں خوف ناک پانی میں کشتیاں نہ چلتی ہوں کشتیاں چلانی ہوں نظم ساتھ دیتی ہے جنگ کرنے والوں سے بستیاں اجڑ جائیں بستیاں نہ بستی ہوں بستیاں بسانی ہوں نظم ساتھ دیتی ہے دوستوں کی آپس میں چھوٹی موٹی رنجش ہو دوریاں نہ مٹتی ہوں دوریاں مٹانی ہوں نظم ساتھ دیتی ہے گرمیوں کے موسم میں کیکروں کی چھاؤں میں روٹیاں پکانی…

Read More