دانش عزیز ۔۔۔ مقدمہ

عجب بھگدڑ ہے، شُورش ہے
دماغ و قلب اْلجھے ہیں
یہ آنکھیں ہاتھ اور بازو
سبھی کیوں سہمے سہمے ہیں
اِنہیں کیا خوف لاحق ہے
زمینِ دل پہ ہر جانب
اگرچہ ہْو کا عالم ہے
مگر یہ شور کیسا ہے
یہ منظر حشر جیسا ہے
بگل بجتا ہے اور جیسے
بدن کے سارے اعضا کو کڑا اِک حکم ملتا ہے
نظر نیچی رہے تیری
سِلے ہوں ہونٹ آپس میں
کوئی ہچکی، کوئی سسکی، کوئی آواز بھی ابھرے نہ ہونٹوں کو دلاسے کا تیقن ہو
فقط خاموشی،
چاروں سَمت خاموشی
قطار اندر قطار اک آسمانی فوج آتی ہے
خداوندِ محبت کی سواری آن پہنچی ہے
سوالوں اور جوابوں کی وہاں فہرست چسپاں ہے
محبت سے بغاوت کے مسائل سب سے پہلے ہیں
عدالت برپا ہوتی ہے
سو کارِعدل ہوتا ہے
کہ ملزم کو ابھی زنجیر کر لو اور لے آؤ
دماغ و قلب حاضر ہیں
یہ آنکھیں، ہاتھ اور پاؤں
گواہی کو پہنچ جائیں
فصیلِ دل کے کونے سے اچانک ہوک اٹھتی ہے
کسی زنجیر کی جھنکار ہے شاید
عجب سی دھند چھائی ہے
نظر ہی کچھ نہیں آتا
مگر معلوم پڑتا ہے
کوئی الجھا سا چہرہ ہے
پریشاں جس کی زلفیں ہیں
خمیدہ ہے کمر جس کی
بندھے ہیں ہاتھ پاؤں بھی
سیہ چادر ہے کاندھوں پر
سپاہی اس کو بازو سے پکڑ کر پیش کرتے ہیں
لوملزم آچکا آقا!
اجازت ہو تو تفصیلِ گنہگاری پڑھی جائے
اجازت مرحمت ٹھہری
فرشتہ فردِ الزامات پڑھتا ہے
مرے آقا! یہ ملزم ہے محبت کا
اسے معلوم تھا سب کچھ
محبت کس کو کہتے ہیں
کہ اس کے رنج و غم کیا ہیں
قوانینِ جدائی سے مکمل آشنا بھی تھا
اسے معلوم تھا سب کچھ
کہ کیسے ملنا جلنا ہے
یہاں کیا کیا لٹانا ہے
یہاں کیا کیا بچانا ہے
اصولِ مے کشی کیا ہیں
اصولِ دل لگی کیا ہیں
برائے عاشقی کیا ہے
اِسے معلوم تھا سب کچھ
کہ اس کارِ محبت میں خسارہ ہی خسارہ ہے
یہ ایسا کام ہے جس میں
شراکت چل نہیں سکتی
یہاں سود و زیاں سارے منافع جان کر منظور ہوتے ہیں
کہ آہ و زاریاں اس میں بڑا بدنام کرتی ہیں
اِسے معلوم تھا سب کچھ
کہ تنہا جینا پڑتا ہے
خوشی میں رونا پڑتا ہے
غموں میں ہنسنا پڑتا ہے
یہ کیسے بھول سکتا تھا محبت کے تقاضوں کو
یہ مجرم ہے خدائے عشق و مستی کا
کہ اس بدبخت نے اکثر
خدائے عشق و مستی کے
بنائے ضابطے،قانون توڑے ہیں
محبت کر کے پچھتایا
ذرا سا ہجر کیا آیا،
جدائی کیا ہوئی کچھ دن،
کہ اس بدبخت نے دنیا میں واویلا کیا بے حد
بڑا اودھم مچایا تھا،
بدن کو خاک کر ڈالا
خس و خاشاک کر ڈالا
خداوندِ محبت ! یہ تو مجرم ہے محبت کا
اسے سنسان جنگل کی سزا تجویز ہوتی ہے
جہاں کے پیڑ سوکھے ہوں
کوئی طائر نہ ہو جس میں
جہاں خوشبو،ستارے چاند اور سورج
کسی صورت نہیں یہ دیکھ پائے اور
جہاں بس ایک موسم ہو
فراق و ہجر کا موسم
یہ جھگڑا اب بھی جاری ہے
عدالت روز لگتی ہے
یہ ملزم روز آتا ہے
گواہی روز ہوتی ہے
خدا وندِ محبت نے خدا جانے کیا سوچا ہے
معافی مل نہیں سکتی ،سزا وہ دے نہیں سکتے
محبت کی بغاوت کی فقط ہے یہ سزا، دانش
اِسے اِس گو مگو میں روز جینا، روز مرنا ہے

Related posts

Leave a Comment