عاجز کمال رانا ۔۔۔ میں چاہتا ہوں مسافت ہزار سو جائے

میں چاہتا ہوں مسافت ہزار سو جائے مرے سفر کے بدن کو تھکن نہ چھو جائے برائے تحفہِ مدحت رہوں میں گریہ گزار خیال روضہِ اطہر پہ با وضو جائے جہاں جہاں تری آہٹ وہاں وہاں مرا دھیان ادھر اٹھیں مری آنکھیں جدھر کو تو جائے نظر میں آتی نہیں پھر یہ لاکھ چاہنے پر اگر گمان سے تفریقِ رنگ و بو جائے ہر ایک ہند کے باسی پہ فرض ہے کہ وہ شخص جنابِ میر سے ملنے کو لکھنؤ جائے ترے وصال کے خطے میں جاگزیں ہو کر عجیب…

Read More