انصررشید انصر ۔۔۔ در کو دیوار کر لیا جائے

در کو دیوار کر لیا جائے رستہ ہموار کر لیا جائے پھر سے تعمیرِ نو کریں دل کی پھر سے مسمار کر لیا جائے کل جو کرنا تھا ایک وعدہ وفا آج ہی یار کر لیا جائے شام ہوتے ہی دیپ جلتے ہیں دل کو دربار کر لیا جائے ظلمت شب کے ختم ہونے تک خود کو بیدار کر لیا جائے اب تو انصر ہر اک تمنا سے خود کو بیزار کر لیا جائے

Read More