استاد قمر جلالوی ۔۔۔

داستاں اوراقِ گل پر تھی مجھی ناشاد کی بلبلوں نے عمر بھر میری کہانی یاد کی مجھ سے روٹھا ہے خودی دیکھو بتِ جلاد کی مدعا یہ ہے کہ کیوں اللہ سے فریاد کی قبر ٹھوکر سے مٹا دی عاشقِ ناشاد کی یہ بھی اک تاریخ تھی ظالم تری بیداد کی کیا ملے دیکھیں اسیروں کو سزا فریاد کی آج کچھ بدلی ہوئی سی ہے نظر صیاد کی رات میں بلبل تجھے سوجھی تو ہے فریاد کی آنکھ سوتے سے نہ کھل جائے کہیں صیاد کی آگیا ان کو رحم…

Read More

قابل اجمیری … وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد

وہ ہر مقام سے پہلے وہ ہر مقام کے بعد سحر تھی شام سے پہلے سحر ہے شام کے بعد مجھی پہ اتنی توجہ مجھی سے اتنا گریز مرے سلام سے پہلے مرے سلام کے بعد چرغِ بزمِ ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ جلے تھے شام سے پہلے بجھے ہیں شام کے بعد یہ رات کچھ بھی نہیں تھی یہ رات سب کچھ ہے طلوعِ جام سے پہلے طلوعِ جام کے بعد رہِ طلب میں قدم لڑکھڑا ہی جاتے ہیں کسی مقام سے پہلے کسی مقام کے بعد

Read More