دستگیر قمر ۔۔۔ جب اپنی کھوج میں دو چار گام چلتے ہیں ، یہ کون جانے کہاں ہوں میں اور کہاں نہیں ہوں

جب اپنی کھوج میں دو چار گام چلتے ہیں
ہم اس کے شہر کی گلیوں میں جا نکلتے ہیں

بوقتِ وصل جنھیں خامشی نے آن لیا
وہ لفظ آج بھی حسرت سے ہاتھ ملتے ہیں

یہ روشنی جو شبِ تار میں میسر ہے
بفیضِ ہجر مِرے دل کے داغ جلتے ہیں

شجر گرا تو پرندے بھی مر نہ جائیں کہیں
وفا شعار کہاں آشیاں بدلتے ہیں

رہِ جنوں میں قمر ہم ہیں طفل کی مانند
سنبھل کے گرتے ہیں، گر کر کبھی سنبھلتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کون جانے کہاں ہوں میں اور کہاں نہیں ہوں
جہاں نظر آ رہا ہوں اب کے وہاں نہیں ہوں

یہ تلخیاں تیری دان کردہ ہیں اے زمانے !
نہیں ہوں نادم اگر میں شیریں بیاں نہیں ہوں

میں اپنی ہستی میں جل رہا ہوں کہ بجھ چکا ہوں
ہوں راکھ میں یا کہ ایک شعلہ دھواں نہیں ہوں

یہ درد نالے یہ آہ و زاری شغف ہے اپنا
قمرؔ کروں کیا کہ اب کے میں نغمہ خواں نہیں ہوں

Related posts

Leave a Comment