دلاور علی آزر … یوں دیدۂ خوں بار کے منظر سے اُٹھا مَیں

یوں دیدۂ خوں بار کے منظر سے اُٹھا مَیں
طوفان اُٹھا مجھ میں سمندر سے اُٹھا مَیں

اُٹھنے کے لیے قصد کیامَیں نے بَلا کا
اب لوگ یہ کہتے ہیں مقدر سے اُٹھا مَیں
پہلے تو خد و خال بنائے سرِ قرطاس
پھر اپنے خد و خال کے اندر سے اُٹھا مَیں
اِک اور طرح مجھ پہ کُھلی چشمِ تماشا
اِک اور تجلی کے برابر سے اُٹھا مَیں
ہے تیری مری ذات کی یکتائی برابر
غائب سے تُو اُبھرا تو میسّر سے اُٹھا مَیں
تو نے مری سوئی ہوئی تقدیر جگا دی
اے مرد قلندر تری ٹھوکر سے اٹھا مَیں
کیا جانے کہاں جانے کی جلدی تھی دمِ فجر
سورج سے ذرا پہلے ہی بستر سے اُٹھا مَیں
پتھرانے لگے تھے مرے اعصاب کوئی دم
خاموش نگاہوں کے برابر سے اُٹھا مَیں
اِک آگ مرے جسم میں محفوظ تھی آزَر
خس خانۂ ظلمات کے اندر سے اُٹھا مَیں

Related posts

Leave a Comment