رانا سعید دوشی

 

چلو تم کو ملاتا ہوں میں اس مہمان سے پہلے
جو میرے جسم میں رہتا تھا میری جان سے پہلے

محبت کرنے نکلے ہو تو صحرا اوڑھنے ہوں گے
یہ باتیں پوچھ لینا تم تنِ آسان سے پہلے

مجھے جی بھر کے اپنی موت کو تو دیکھ لینے دو
نکل جائے نہ میری جاں، مرے ارمان سے پہلے

مری آنکھوں میں آبی موتیوں کا سلسلہ دیکھو
کہ سو، تسبیح کرتا ہوں میں اک مسکان سے پہلے

کوئی خاموش ہو جائے تو اس کی خامشی سے ڈر
سمندر چپ ہی رہتا ہے کسی طوفان سے پہلے

پرانا یار ہوں دوشی، مرا یہ فرض بنتا ہے
تجھے ہشیار کر دوں میں ترے نقصان سے پہلے

Related posts

Leave a Comment