کون سی آس لگا بیٹھا ہے
وہ ابھی کر کے دعا بیٹھا ہے
سرِ معبد پہ ہے شیطان سوار
بادہ خانے میں خدا بیٹھا ہے
روٹھ کر مجھ سے کہاں جاتا وہ
پھر مری راہ میں آ بیٹھا ہے
شہر کا شہر جلانے والا
اپنا گھر بار جلا بیٹھا ہے
اس کے چہرے پہ ہے سورج کا گماں
شعلہ سینے میں دبا بیٹھا ہے
گفتگو کرتے نہیں آپس میں
لمحہ ،لمحے سے جدا بیٹھا ہے
زرِ امید پہ اترائے تو کیا
جو ملا تھا وہ گنوا بیٹھا ہے
اس کی چہکار فضا میں گونجی
غم کی دیوار گرا بیٹھا ہے
جس سے اٹھا نہ کبھی اپنا بوجھ
بوجھ دنیا کا اٹھا بیٹھا ہے
اس نے چھوڑی نہ نشانی اپنی
نقش پا اپنا اٹھا بیٹھا ہے
خود تو وہ جاگ رہا ہے لیکن
مجھے پہلو میں سلا بیٹھا ہے
نقش مٹتے بھی ہیں بنتے بھی ہیں
کیا تماشا وہ لگا بیٹھا ہے
کیا زمانے کو ہوا ہے رزمیؔ
یار سے یار جدا بیٹھا ہے