رات اک لہر رُکی پانی میں
صبح دم گھاس اُگی پانی میں
پھر بڑھی آس کی لَو آنکھوں میں
پھر وہی آگ لگی پانی میں
خواب میں آج اُسے دیکھیں گے
چاند اُترے گا ابھی پانی میں
جھیل میں شام نے رکھا ہے قدم
گویا اُتری ہے پری پانی میں
پہلے خود برف بنا تھا پانی
پھر وہی برف ڈھلی پانی میں
ہر طرف ایک گھنا بادل تھا
رات وہ بات نہ تھی پانی میں
ایک تارا ہے نظر میں ساجد
ایک قندیل جلی پانی میں