قاضی حبیب الرحمن

ہر آن پھیلتا جاتا ہے غم کا صحرا بھی
بجھا سکا نہ مری پیاس ہفت دریا بھی

عجب زمانوں کا درپیش ہے سفر کوئی
کہ تھک کے بیٹھ گئی راہ میں تمنا بھی

گزرتی جاتی ہے ہر سانس زندگی اپنی
ٹھہر سکا کہیں دم بھر، ہوا کا جھونکا بھی

ہزار بار، مری جاں! اسے غنیمت جان
نگاہ بھر کو جو ہے فرصتِ تماشا بھی

دوئی نہیں ہے محبت کے تجربے میں کوئی
مری طلب ہے تری آنکھ سے ہویدا بھی

اس اک امید پہ خود کو بھی تیاگ بیٹھے ہیں
دکھائی دے وہی صورت کہیں دوبارہ بھی

مقامِ عرش تھا یا پھر خدا خبر، کیا تھا؟
کہ ساتھ چھوڑ گیا آخری سہارا بھی

وہ ایک لمحہ کہ جب سامنا ہوا خود سے
ہزار صدیوں پہ بھاری تھا اک وہ لمحہ بھی

یہ چشمِ سر سے جو منظر دکھائی دیتا ہے
سمجھ اسی کو حقیقت بھی استعارہ بھی

یہ زندگی ہے کہ تجدیدِ زندگی، کیا ہے؟
بدلتا جاتا ہے پہلو، ترا تقاضا بھی

یہ بات یاد رہے آج تیرے کوچے میں
کنارِ بحر سے لوٹا ہے کوئی پیاسا بھی

ملے جو فرصتِ یک لحظہ اپنی ہستی سے
تو دیدنی ہے پسِ دید، اک نظارا بھی

یہ کس کو ڈھونڈ رہے ہو خلا میں اب، یارو!
غریقِ مہر ہوا، آخری ستارہ بھی

نہ جانے بات کہاں سے کہاں نکل جاتی
جو میں رکا تو رکا دوسرا کنارا بھی

پھر اس کے بعد خموشی بیاں کرے گی حبیبؔ
یہیں تلک تھا مگر گفتگو کا یارا بھی

Related posts

Leave a Comment