لبنیٰ صفدر ۔۔۔ کچھ سمجھ لوں، پرکھ تولوں کہ نہیں

کچھ سمجھ لوں، پرکھ تولوں کہ نہیں
پھر بتائوں گی تیری ہوں کہ نہیں

تو مری آنکھ میں تو جھانک ذرا
یہ سمندر ہے نیلگوں کہ نہیں

میں نے خود کو گلاب کرلیا ہے
تیرے گلدان میں سجوں کہ نہیں

اِک ستارہ سا تیری راتوں میں
صبحِ نو کی کرن بنوں کہ نہیں

جب بچھڑنے لگو بتا دینا
میں صدائیں بھی تم کودُوں کہ نہیں

میں ترا نام اپنے نام کے ساتھ
مالکِ جان و دل! لکھوں کہ نہیں

ہجر تیرا جو مجھ کو لاحق ہے
اس کو تا عمر میں سہوں کہ نہیں

ایک پتھر کے ساتھ لْبنی میں
شیشہء دل لیے پھروں کہ نہیں

Related posts

Leave a Comment