یہ میں کیسے نگر میں آ گیا ہوں کہ خود کو اجنبی سا لگ رہا ہوں یہ تنہائی ہے کیوں میرا مقدر یہ تنہائی میں اکثر سوچتا ہوں سرِ دشتِ تخیل یہ خموشی میں اپنی ہی صدا سے ڈر گیا ہوں تمہاری ذات سے نسبت جو ٹھہری سو خود کو معتبر لگنے لگا ہوں کھٹکتا ہوں انہیں تو کیا عجب ہے تمہارے ساتھ جو بیٹھا ہوا ہوں
Related posts
-
قمر جلالوی ۔۔۔ جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم
چھوٹ سکتے ہی نہیں طوفان کی مشکل سے ہم جاؤ بس اب مل چکے کشتی سے... -
ماجد صدیقی ۔۔۔ چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو
چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو جو بے اصول ہو، کب چاہئیں... -
غلام حسین ساجد ۔۔۔ جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے
غزل جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے کام لیتا ہوں وہاں نقدِ ثنا خوانی...