میر تقی میر ۔۔۔ تھا مستعار حسن سے اُس کے جو نور تھا

تھا مستعار حسن سے اُس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھا

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طور تھا

مجلس میں رات ایک ترے پرتوِ بغیر
کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا

منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا
اُس رند کی بھی رات گزر گئی جو غور تھا

ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سہ پہر
اُس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا

ق
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یک سر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا

تھا وہ تو رشکِ حور بہشتی ہمیں میں میر
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا

Related posts

Leave a Comment