خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہوگیا
گل باغ میں گلے کا مرے ہار ہوگیا
کس کو نہیں ہے شوق ترا پر نہ اس قدر
میں تو اسی خیال میں بیمار ہوگیا
ہے اس کے حرفِ زیر لبی کا سبھوں میں ذکر
کیا بات تھی کہ جس کا یہ بستار ہوگیا
تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ آنکھ
وہ جی کو بیچ کر بھی خریدار ہوگیا
کیا کہیے آہ عشق میں خوبی نصیب کی
دل دار اپنا تھا سو دل آزار ہو گیا
کب زد ہے اس سے بات کے کرنے کا مجھ کومیرؔ
ناکردہ جرم میں تو گنہ گار ہو گیا
Related posts
-
محسن اسرار ۔۔۔ گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا
گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا یہ کوئی وقت ہے تیرے کمال کرنے کا برا... -
احمد فراز ۔۔۔ زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے تو محبت سے... -
فانی بدایونی ۔۔۔ آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ دردِ دل...