نوشاد منصف ۔۔۔ ایسے نہ آپ دیکھیے ترچھی نگاہ سے

ایسے نہ آپ دیکھیے ترچھی نگاہ سے
پرہیز کر رہے ہیں ابھی ہم گناہ سے

ہو گا ضرور ثانئِ یوسف کوئی وہاں
اک روشنی سی پھوٹتی ہے دل کے چاہ سے

رکھنا پڑے گی دو سے بہ ہر طور دوستی
زاہد سے شیخ سے یا گداگر سے، شاہ سے

چہرے کی گرد پاؤں کے چھالے کہیں ہمیں
منزل بہت قریب ہے پلٹو نہ راہ سے

چارہ گرو! دوا ہے یہی آزماؤ پھر
حالت سنبھل رہی ہے مرے دل کی، آہ سے

اک دور تھا کہ روشنی زیبِ بدن رہی
اک دور یہ کہ تیرگی کی ہیں پناہ میں

بزمِ طرب کو زیست کا حاصل نہ جان تو
منزل تجھے ملے گی کسی غم کی راہ سے

بے جرم ہم نے یوں بھی سزا پائی بارہا
مانوس وہ نہ تھے جو کسی غم سے، آہ سے

منصف سیہ لباس اتارے نہ جب تلک
اوجھل نہ ہو گا منظرِ وحشت نگاہ سے

Related posts

Leave a Comment