ڈاکٹر شفیق آصف ۔۔۔ وہ ملا تو جانے کیوں اک شور سا برپا ہوا

وہ ملا تو جانے کیوں اک شور سا برپا ہوا
بات معمولی تھی سارے شہر میں چرچا ہوا

چل رہی تھیں سارے جنگل میں ہوا کی برچھیاں
پاس ہی اک جھونپڑی میں دیپ تھا جلتا ہوا

کل ستارے رو رہے تھے بے کسی پر جب مری
چاند کو دیکھا تھا میں نے جھیل میں ہنستا ہوا

جانے کب اور کس جگہ سانسوں کو آزادی ملے
دُور تک اک سلسلہ ہے حبس کا پھیلا ہوا

اک کھلونے کی طرح انسانیت کا ہے وجود
شاہراہِ   زندگی پر ٹوٹ کر بکھرا ہوا

لوگ کہتے ہیں جسے تصویرِ زخمِ آرزو
گلشنِ احساس میں وہ پھول ہے مہکا ہوا

میری آنکھیں رات دن بس اس کی جانب ہیں شفیقؔ
ان خلائوں سے پرے وہ کون ہے ٹھہرا ہوا

Related posts

Leave a Comment