کنیز
۔۔۔۔۔۔
حضور آپ اور نصف شب مرے مکان پر
حضور کی تمام تر بلائیں میری جان پر
حضور خیریت تو ہے، حضور کیوں خموش ہیں
حضور بولیے کہ وسوسے وبالِ ہوش ہیں
حضور، ہونٹ اِس طرح کپکپا رہے ہیں کیوں
حضور آپ ہر قدم پہ لڑکھڑا رہے ہیں کیوں
حضور آپ کی نظر میں نیند کا خمار ہے
حضور شاید آج دشمنوں کو کچھ بخار ہے
حضور مسکرا رہے ہیں میری بات بات پر
حضور کو نہ جانے کیا گماں ہے میری ذات پر
حضور منہ سے بہہ رہی ہے پیک صاف کیجیے
حضور آپ تو نشے میں ہیں، معاف کیجیے
حضور کیا کہا، مَیں آپ کو بہت عزیز ہوں
حضور کا کرم ہے ورنہ مَیں بھی کوئی چیز ہوں
حضور چھوڑیے ہمیں ہزار اور روگ ہیں
حضور جائیے کہ ہم بہت غریب لوگ ہیں