عجیب حیرت کدہ ہے دنیا! زمیں اندھیرے میں تیرتی ہے تو کون اس کو نشان دیتا ہے منزلوں کے! کوئی تو ہے جو چمکتے سورج کی روشنی کو سفید رنگت سے، سات رنگوں میں ڈھالتا ہے یہ پیڑ ہونے کا خواب بھی تو عطا ہے اس کی، جو بیج کی آنکھ مردہ مٹی میں دیکھتی ہے! اسی کی نادیدہ انگلیاں ہیں جو پیہم امکان کے ورق پر، نئی لکیریں بنا رہی ہیں! سروں پہ یہ گنبدِ زبرجد، بچھا ہوا، زیرپا، زمرد کا فرشِ مخمل! زمین اور آسماں کے ان سبز آئنوں میں، سیاہ دھبا وجود اپنا! یہ میرے اندر، لڑھکتا بھاری سیاہ پتھر، میں جس کے نیچے کراہتا ہوں اگر وہ چاہے تو پل میں پتھر کو کاہ کر دے وہ اپنی انگلی سے مَس کرے اور اس کو خاکِ سیاہ کر دے