شاہین عباس ۔۔۔ امانت سولہ آنے

شہر میں کچھ بن رہا تھا۔ کیا بن رہا تھا،یہ اندازہ ذرامشکل ہی سے ہوپاتا۔ صورت کچھ یوں تھی کہ اندازہ لگانے والے فیتے اور فرلانگ اپنی قدر کھو بیٹھے تھے۔فیتے، لوہے کے صندوقوں میں پڑے تھے اور صندوقوں کی پیشانیوں پر بڑے بڑے تالے خالی خولی کھڑاک کے لیے ڈال د یے گئے تھے۔ چلتی ہوا کے ساتھ ساتھ بے طرح کا کھٹکاکھڑاک،جیسے لوہا،لوہے سے بجتا ہو یا بھڑتا ہو۔ دونوں آوازوں میں فرق کرنا ممکن نہیں تھا۔ رہے فرلانگ،تو وہ زمین کے اندر پرت،دو پرت گھنے،گھنیرے پردوں میں جا چھپے تھے کہ ایسے نامحرم میٹروں اور کلومیٹروں کے بیچ پردگی کی یہی شرط عائد ہوتی تھی۔ گویانامحرموں سے حجاب کا معاملہ اِنھیں وقتوں پر تو اٹھا رکھا گیا تھا۔ یعنی یہی اوقات اور دن رات مینہ کی پھوار کی طرح ننگ مننگے اُس طرف رواں دواں رہتے جہاں قیامت کا میدان سجنے کی شنید تھی۔ آج نہیں تو کل یا ہو سکتا ہے آج ہی سے،ابھی ہی سے!مگراِن سب باتوں کا مطلب یہ بھی نہیں کہ شہر میں تعمیر،نو تعمیر کی اپنی کوئی شناخت سامنے نہیں آ رہی تھی ۔وہ توآ ہی رہی تھی،اور کیسے نہ آتی کہ خزانے کی چوری کو حلال ثابت کر نے کا یہ ایک ٹوٹکا بھی تو تھا کہ سولہ آنے میں سے بارہ آنے جیب میں چھپا لیے اور باقی چار کا چاند تارا سڑک پر گھما پھرا دیا۔ اِسی لیے ساتھ ہی ساتھ یوں لگتا کہ یہ تعمیرِ نو،اضافے،ترامیم،ماڈل سٹی یا مثالی شہر کی طرف پیش قدمی،اندر ہی اندر تخریب اور توڑ پھوڑ کی اپنی ساکھ کا معاملہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بارہ، چار سولہ کا یہ حساب سینہ بہ سینہ کچھ زیادہ چڑھ دوڑا تھا،اور ہر کسی پر تو کھل بھی نہیں رہا تھا۔ پوروں اور پوٹوں کے سدھائے ہوئے ریاضی دانوں کا رجسڑ تو بند ہی سمجھیے اور کاروبار ٹھپ۔ دکان اگلے چوک میں منتقل ہوگئی اور اگلا چوک کہاں منتقل ہوا،آج تک کھل نہ سکا!اگر کہیں کچھ کھلا بھی تو ایسے،جیسے سر پررکھی ہوئی گٹھڑی کی گرہیں ایک کے بعد ایک،ڈھیلی پڑنے لگیں اور اندر اندھیارے میں جو آٹا دال بھی بندھا چلاآ رہا ہو،رہ رہ کر زمین پر گرتا رہے۔ گلیوں گلیوں اناج کی آڑی ترچھی لکیریں کھنچتی جائیں،جیسے سانپ پھر گیا ہو،اور پیچھے چلنے والے لکیروں کا جو مطلب چاہیں نکالتے رہیں۔کلیمی کا پٹا ہواپہاڑی برادہ یا کچھ اور،طورِ سینا کی کوہستانی ڈھلوانوں سے لڑھکتا ہوا پارہ پارہ اور ریزہ ریزہ، بعد میں جس کا نام لینڈ سلائڈنگ پڑا اور مون سون کی بارشوں میں نشیبی علاقوں کے رہائشیوں کو انخلا کے کاشن دیے جانے لگے۔ وہ لوگ سال سال بھر اپنے مکانوں دکانوں میں آتے جاتے،سر اٹھااٹھا کر اُوپر چوٹی کو محتاط نظروں سے دیکھتے رہتے،جیسے ابھی ابھی چٹان کے نہیں آسمان کے نیچے آنے کا اعلان سن کر آرہے ہوں۔ میں نے کہا ناں کہ یہ سارا بننا بنانایوں جانیے کہ سر پڑی افتاد کا اُلٹ پھیر تھا،جس کی تاریخ کو ضرورت تھی نہ جغرافیے کو۔بس اِن دو کے مابین معلق انسان نے ہنڈولا جھولتے رہنے کا بہانا ڈھونڈ لیا تھا اور اُسے وقت گزاری کا انعام الگ سے ملنے لگا تھا،جس سے اُس کی آنکھوں میں سور کا بال آ گیا تھا اور توند کا مٹکا سامنے کی دیوار سے ٹکرانے لگا تھا۔وہ ایک چکر اور،ایک چکر اور کی گردان کرتاکتنے ہی چکر دے چکا تھا اور ہنوز دائرے سے باہر کھڑا تھا۔کبھی کسی چوراہے کی کھدائی بھر ائی اور کبھی کسی کی۔ ٹھوکر پر ٹھوکر کھائی،آنکھیں جھپکتے ہوئے ایک لمحے کو رُکے،راستہ سمجھ میں نہیں آیا تو ذرا سر کو کھجایا کہ خدایا شہر کہاں گیا،دوسرے چوراہے کے اندرسے اپنی راہ نکالی،چھینٹے اُڑے،جیسے متبادل گلی نے اجنبی کو بہ خوشی قبول نہ کیا ہو،پائینچوں کو ٹخنوں تک اٹھاتے، سرکاتے،خدا خدا کرتے گھر پہنچ ہی گئے۔ ایک مشکل تو بہر حال تھی کہ ٹخنوں سے نیچے کیچڑ تھا اور اوپر پنڈلیوں کے قریب ستر کا علاقہ۔ اب ستر دکھا کر ہی چھینٹوں چھپاکوں سے بچا جا سکتا تھا۔ پیچھے شہر تھا یا نہیں تھا،مگر آگے گھر ضرورتھا۔سا ئیکل صحن کی دیوار سے ٹکائی اور ہینڈل سے تھیلا اتارتے ہوئے سوچا کہ یہ چور دروازہ بھی نہ ہوتا،تو آج رات کھلے آسمان تلے بلدیہ کے بلڈوزر اور بیلچے گنتے ہی گزر جاتی۔ بیلچے اور بلڈوزر کس کس نشیب کی دریافت کے لیے بنے ہیں۔ پہلے یہ نشیب کو دریافت کرتے ہیں، اندر کی مٹی باہر اور باہر کی اندر۔ پھر کام ختم کرنے کی جلدی میں اندر کیا اور باہر کیا۔اپنے ہی کیے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں اور سندِ تکمیل پانے کے لئے سرپٹ دوڑتے ہیں۔کمیٹی،کچہری میں تو اِنھیں کے چھوٹے بڑے بغلوں میں فردیں دبائے دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں۔مہریں اور ٹھپے دِکھا دِکھا کر اپنا ناواں کھرا کرتے ہوئے شلوار کی جیب میں ڈالتے جاتے ہیں۔اُسے شلوار کی جیب دیکھتے ہی وہم ہوتا کہ درزی اِس تہ خانے کو بناتا ہی اِس لیے ہے،ورنہ تو کُرتے کے بائیں جانب دل کے اُوپر والی جیب ہی کافی تھی۔ یہ جو انگلی کو زبان سے مس کرتے ہیں کہ پور دو پور اندر کے رَتی دو رَتی نم سے ذرا سیل جائے تو ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے نوٹ الگ الگ اور ٹھیک ٹھیک شمار کر لیے جائیں، یہ لوگ خود بھی تو بے شمار ہیں اور اُسی طرح تہہ بہ تہہ پڑے ایک غلے سے دوسرے میں اور دوسرے سے تیسرے میں دوڑتے پھرتے ہیں،جیسے کرنسی کے کاغذ۔ کسی نے اِن کو بھی رال دو رال کی سیلن کے عوض ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رواں کر رکھاہے، جیسے گٹھی پرگٹھی گن گن کر تجوری میں پھنکوائی گئی ہو۔ جہاں ذرا گیلا کم پڑا اور ایک کی پشت دوسرے کے ماتھے سے چپک گئی ، تو وہی لعاب کا داروچلا اور گنتی پھر سے شروع ۔۔وہ سوچتا رہتا:یہاں تک کہ کسی اور کی پوروں کا سیلا کسی اور کے ماتھے پر محسوس ہونے لگتا۔ لفٹی کا تو جیسے روز کا معمول تھا کہ وہ سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر کچھ دیر تک دورویہ کا مرکز تلاش کرتا،یا ایسی وضع بنا لیتا کہ زمانے کو دکھا سکے کہ اُس کی آنکھیں کسی گم شدہ کی کی متلاشی ہیں۔شہر کاایک وسط مغلوں نے معلوم کیا تھا، جسے انگریز سر کار نے منسوخ کر دیا اور نئے دور میں نیا درمیان لے آئے۔ وہ گئے تو نقشہ پیچھے چھوڑ گئے۔ اِدھر کے مسلمانوں کو اپنا حصّہ ملا۔ نقشے کی کھینچا تانی شروع ہوئی ۔نو وارثوں سے جہاں جہاں جو لکیر بن پڑی، کھینچ دی ۔ لکیر تو لکیر ہوتی ہے:نئے وارثوں کی لگائی ہوئی ہو یا قدیمی وارثوں کی، کاٹ کے رکھ دیتی ہے ۔ ہاتھ آئے ہوئے شکار کو کھائے نہ کھائے،مگر کتر کتر کر تکہ بو ٹی اِدھر اُدھر پھینکتی تو رہتی ہے، یوں جیسے سالم تھان کے پارچے ہوں اور پھر پارچوں کی کترنیں۔ بزاز خوش کہ شام سے پہلے پہلے سارا کپڑا بک گیا مگر خریدارایک ایک لیر کے تعاقب میں ہوا کے ساتھ ساتھ کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ ایسی رسّا کشی میں سب سے بڑھ کر نقصان بھی مرکز ہی کا ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر بے ہنگم گھڑ دوڑ بھی اِسی کے گردا گرد ہوتی ہے۔ لفٹی!یہ خطاب اُسے کب اور کیسے ملا، اور کس نے اُسے چلتے ہوئے دیکھ کر اُلٹا سیدھا آوازہ اُس کی طرف اچھا ل دیا،لفٹی اوئے، کچھ نہیں معلوم۔ مگر تھا تو یہ اُسی ابجد سے چرائے ہوئے چارحرفوں کا مرچ مسالہ،جس کے چٹخاروں کی سرڑ سرڑ اُس کی گھٹی میں بھی شامل تھی اور دہن سے ہوتی ہوئی کانوں تک سے دھواں نکلوا رہی تھی۔اُس نے زور زور سے گیند کو اچھلتے دیکھا تو آنکھیں اُوپر نیچے اٹھاتا گراتا ہوا،بھاگا۔ فرار کے لیے نہیں، بلکہ گرفتاری کے لیے۔ گیند ٹھپے کھاتی ہوئی آخری بار اٹھی ۔ قبل اِس کے کہ گیند آخری اچھال کے بعد زمین پر جہاں جگہ ملتی،خاموشی سے جا پڑتی، اُس نے ہوا میں دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے ، یا یوں کہنا چاہیے کہ پست کرتے ہوئے،یہ گولا کیچ کر لیا اور اپنی ہی وکٹ گرادی۔اُس کا سارا زور پائوں کے پنجوں پر پڑا،ایڑیاں زمین سے اوپر اٹھیں، ایک کچھ کم ایک زیادہ،تو اُسے اندازہ ہوا کہ وہ نارمل انسان نہیں، پیدائشی ابنارمل ہے۔ نارمل ہوتا تو گلی کی اینٹوں سے عمود بناتی ہوئی ایڑیاں دونوں خط برابر برابر کھینچتیں اور پنجوں پر ایک جیسا وزن پڑتا۔ مگر اُس کی بائیں ٹانگ نے تو جیسے بار برداری سے معذوری ہی ظا ہر کر دی۔بس وہیں مساوات پر سے اُس کا یقین اٹھنے لگا۔ ایک آخری حیلے حربے کے طور پر سہی،وہ الف ایسی سونٹی کی سونٹی اور سونڈ کی سونڈ کو یوں سہلانے لگا کہ خود سارے کا سارا دائیں ٹانگ پر جا گرا اور پھر عمر بھر وہیں پڑا رہا۔ ایک دن وہ جب نام رکھے گئے اور ایک دن یہ کہ جب نام بگاڑے گئے ، دونوں ایک سے لگے۔ اُس نے گلی میں بکھری ہوئی اپنی کتابیں کاپیاں اٹھائیں اور گھر میں داخل ہو گیا۔جانے اُس نے کس وقت ان کاپیوں کتابوں کے سرورق پر نام طالبعلم کے خانے میں نام تبدیل کردیا۔ بس پھر تو حاضری رجسٹر میں لفٹی،سیکنڈری بورڈ کے سر بمہر کھاتوں میں لفٹی۔سلایا گیا تو لفٹی،اور جانچ پڑتال کے بعد دوبارہ جگایا ،تو بھی لفٹی۔’سرکار نے اِدھر کی آبادیوں کو چھیڑا ۔ اُدھر کچھ نہیں کہا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے‘ ’ اچھا ریٹ بھی تو دیا،جن کی رجسٹریاں تھیں۔ ملبے کے الگ پیسے۔‘ ’مگر اوقاف کی زمینو ں والے تو مار ے گئے بے چارے‘ ’اب دیکھیے!سڑک ایک طرف کچھ اور ہے اور دوسری طرف کچھ اور ۔ کتنی بُری لگتی ہے‘ ’یہ کیا تماشاہے کہ شہر آنے والوں کے لیے تنگ ہو اور جانے والوں کے لیے کھلی ڈُلی سڑک‘ ’ہو نہ ہو۔یہ فٹ پاتھ کو ذرا اِدھر سرکائیں گے۔اُن کے لیے مشکل تھوڑی ہے۔‘ ’فٹ پاتھ ہے بھائی،کوئی سر کی مانگ تھوڑی ہے کہ بیچ میں نہیں جچی،تودائیں بائیں کہیں بھی کھسکا دی،پیچھے چٹیا بنا دی،جوڑا بٹھا دیا کہ مانگ ٹکی رہے،توٹکی رہے گی‘۔ ’آپ دیکھ لیجیے گا۔ اِسی لکیر کو دھکیلا جائے گا اِدھر ۔ اُدھر کس کی مجال ہے کہ بلڈوزر چلائے!‘ ’ہاں اُدھر تو جیسے اُن کے بڑوں کی قبریں ہیں نا‘ ’تھانہ ہے،جیل ہے۔ پوسٹ مارٹم والا بیٹھتا ہے۔ قبریں تو ہیں‘ ’ایک ایک میں ستر ،ستر‘سہراب مارکہ اٹھارہ انچ کی نیلی سائیکل جو لفٹی کو ایک دُنیا سے نکال کر دوسری دُنیامیں لے جاتی،گزشتہ بیس برس سے اُس کے پاس تھی۔ ’براق کی زین بھی کیا زین ہے۔ چمڑے کی سیاہ کاٹھی اور اُوپر خاکی جین جیسے فوجی وردی،اُس کے اُوپر میں۔ سب سے اُوپر اللہ میاں اور وہ ہ ہ ہ ہ رہی نیچے،سب سے نیچے خلقِ خدا۔ پِدی پِدی سی۔ بونے بونیاں۔ ماسی چیونٹی،خالو چیونٹا۔ چاچی سُنڈی۔ چاچا سُنڈا ‘ ’نیچے اُتر آؤ بھائی۔ یہ آسمانی سواری نہیں۔ نیلی ہے تو کیا ہوا!‘ ’اور کیا۔ ہیں تو دو ہی پہیے ناں۔ کوئی سو تھوڑی ہیں!‘ ’کئی کئی بار کی پھٹی ہوئی ٹیوب، جگہ جگہ پنکچر اور اللہ میاں کی مہمان‘
’ابے سائیکل نہ ہوئی،دُلھن ہوئی۔جب دیکھولش پش۔ لش پش‘ ’کوچی سے رگڑ رگڑ کرچمکانا کوئی تم سے سیکھے۔ بندے کو اپنا منہ نظر آ جاتا ہے لوہے میں‘ ’یہ تو صبح کنگھی بھی اِسی شیشے میں کرتا ہو گا۔‘ ’اور یہ جھنڈیاں دیکھو۔ یوں لگتا ہے مسہری سجا بناکر گھر سے باہر دھکیل دی ہو ۔ جاؤ وہیں سڑک پر سہاگ،سہاگ کھیلو!السلام علیکم،میں نے وضو کرلیا ہے۔ اٹھو اور تم بھی وضو کرو۔ پہلے شب عروسی کے دو دو نوافل ہو جائیں۔پھر کچھ اور ‘۔
’پیارے میاں جتنا تمھارا اپنا وزن ہے،اُس سے زیادہ کے تو یہ گڈی کاغذ چپکا رکھے ہیں جگہ جگہ‘ ’کوئی منت مرادپوری ہوئی ہے کیا ‘ بڑے چوراہے پر سگریٹ ہونٹوں میں دبائے ہوئے لوگ گردنیں اُوپر کیے اُ سے دیکھ دیکھ کر چلاتے رہتے، جیسے کش لگا لگا کر دھواں اُوپر کو اُڑا رہے ہوں۔ لفٹی سنی اَن سنی کر دیتا۔ وہ لوگ تھک ہار کر گردنیں نیچے گرا لیتے ۔ سگریٹ کے فلٹر سے سامنے کی دیوار کا نشانہ باندھتے اور منہ میں پان ٹھونس لیتے، کوئی پیلی پتی ، کوئی بنارسی، کوئی الائچی سپا ری اور کوئی صرف روغن کتھا۔ یہ وہ گلی والے تھے جو غیبت چغلی سے ہاتھ نہ اٹھا سکتے ۔ اپنے گال پُھلا پُھلا کر بدبداتے اور لفٹی کے چکر گنتے رہتے ، جیسے لقمے گن رہے ہوں۔ پھر سگریٹ پان والے کھوکھے کی عقبی چادر سے پشتیں جوڑ کر جیب سے نیا سگریٹ نکالتے ۔ پہلے اُسے خالی کرتے اور پھر بھرنے لگتے۔اُن میں سے ایک اکڑوں بیٹھا چابی کی نوک سے زمین پر بارہ ٹینی کی بساط بچھا رہا ہوتا، جو کہ اُن کا اگلا پڑاؤ ہوتا ۔
’’ ایسے نہیں مانے گا۔۔۔ کتے فیل ہوں گے نا سب کے سامنے ، پھر اترے گا!‘‘
’’ پھر دیکھناکیسے منہ لٹکا کر آئے گا ۔۔بھائی بچالو ۔۔۔۔ سب نے دیکھ لیامجھے بھی اور اُسے بھی!‘‘
’’ کاٹھی پر اُوپر نیچے مستیاں کرتے۔۔ یہی نا ؟‘‘
’’۔۔۔ لومیں اتار دیتا ہوں جھنڈیاں۔ اب نہیں جائوں گا اُوپر۔‘‘
لفٹی کو جب کبھی اچانک بریک لگانی پڑ جاتی تو کم از کم پائوں کے پنجے تو زمین کو چھو ہی لیتے اور دور تک رگڑ کھاتے خاک اڑاتے ہوئے گھستے جاتے۔ تاہم ایڑیاں اُستادی دکھا جاتیں کہ دونوں میں اونچ نیچ رہ جاتی ۔ اُستادی ، مگر کتنی! اُسے دیکھنے کی مہلت ہی کہاں ہوتی۔یہ وہ پہلا سوار تھا جسے سٹینڈ لگے لگے سائیکل پر سوار ہونا پڑتا ، کوئی ہاتھ پشت پر نہ جانے کہاں سے آجاتا۔ پھر وہ جسم کو آگے کی طرف ذرا جھٹکتا اور سواری کو پتا چل جاتا کہ اب آگے کی طرف بڑھنا ہے۔ سائیکل ، سٹینڈ سے اتر جاتی اورد ونوں پہیے گردش میں آجاتے۔ ڈیوڑھی کی دہلیز پیچھے رہ جاتی اور پشت پر بنی ڈھال ساتھ ساتھ چلتی رہتی۔ لفٹی کے پاس رفتار پکڑنے کا یہی ایک راستہ تھا جب کہ اُس کے ساتھ کے لوگ جیسے چاہتے، اپنے اپنے سفر کا آغاز کرتے ۔ وہ لوگ بائیس بائیس انچ کی سائیکلو ں کو سٹینڈسے اتار کر پہلے خالی دوڑاتے ، یا آدھی قینچی ، پوری قینچی سے دو چار فرلانگ تک وارم اپ ہوتے اور پھرعلی علی کرتے کاٹھی پر براجمان ہوجاتے۔ گھنٹی بجاتے، ایک دوسرے کو سائیڈیں مارتے ہوئے یہ جا ، وہ جا۔اُسے آدھی قینچی اور پھر پوری قینچی سیکھنے کا شوق تھا کہ کاٹھی پر پیٹھ ٹکانے کے لیے راستہ اِسی پہلے اور دوسرے سبق سے ہو کر جاتا تھا۔ سائیکل سواروں کا قافلہ مین روڈ سے گزرتا تو ساتھ کے ہم سفر اُسے کہتے:
’’ بھائی لفٹی ، تم تو کوئی پہنچے ہوئے لگتے ہو جو بغیر قینچی چلائے ہی سائیکل چلانی سیکھ گئے ہو!‘‘
’’ اور کیا ۔ ہمیں دیکھو ۔ دو دو مہینے تو قینچی پکی کروائی استاد نے۔ ‘‘
’’ کاٹھی کا چہرہ ہی نہیں کرایا۔ ‘‘
’’ بایاں پائوں پیڈل پر یوں رکھو۔ پھر ڈنڈے کے بیچ میں سے دائیں ٹانگ گزار و۔دایاں پائوں دائیں پیڈل پر اور دونوں ہاتھ مضبوطی سے دونوں ہینڈلوں پر۔ آنکھیں بالکل ناک کی سیدھ میں۔ یوں نہیں، یوں۔۔۔۔ پھر دیکھو خود بخود آسمانی جھولے کی طرح دونوں طرف کیا اونچ نیچ لگتی ہے!‘‘
’’ روک بھئی روک سائیکل، یہیں ہوشیار پور سویٹ کے سامنے۔ تم پر دم پڑتا ہے!‘‘
اُن میں سے کچھ ایک دم اگلی بریک لگاتے اور دیوار سے جاٹکراتے۔
’’ چار پیالے دودھ جلیب ، گرماگرم۔۔۔ فوراََ سے پہلے۔‘‘
لفٹی نے بغیر قینچی سیکھے سائیکل چلانا کیا سیکھ لیا ، یوں لگا کہ سال میں دو جماعتیں پاس کر لیں ۔ جو نہیں سمجھے کہ یہ ڈبل پروموشن ہے یا کچھ اور ، وہ سردیوں میں جلیب اور گرمیوں میں فالودے کی پلنٹی ڈالتے رہیـ :
’’ یار لفٹی ۔ تو چلتے چلتے دھڑام سے گر کیوں جاتا ہے؟‘‘
’’ سامنے والے کو بھی لے بیٹھتا ہے۔‘‘
’’ یہ ٹکر یں لگانا کہاں سے سیکھا ہے۔باؤ استاد سے نا ؟‘‘
’’ ہاں تو اورکس سے‘‘۔ کوئی اور بول پڑتا اور لفٹی خاموش کھڑا جیب میں ہاتھ ڈالے حساب کرتا رہتا کہ جلیبوں کے کتنے پیسے بنے اور فالودے کے کتنے۔ دسو ، پنجو کم پڑتے تو کان میں اڑسی ہوئی چونی نکال کر بل کی رقم پوری کرتا۔ کبھی کبھی دکاندار کے اندر کامسلمان جاگ پڑتا تو کہتا : ’’ بابے او ! ڈبل پروموشن پر تو تم سے ہمدردی ہونی چاہیے ، یہ الٹا لوٹ رہیں تمھیں۔ اِ نھیں پتا نہیں قینچی تیرے بس کی بات نہیں۔ ‘ ‘
’’ چھوڑ چاچا ۔ یہ پیسے پکڑ۔ کیوں اپنی گاہکی کے پیچھے پڑا ہے۔ جو آتا ہے ، آنے دے!‘‘
وہ دکاندار کا ہاتھ پکڑ کر اُس پر اپنی بند مٹھی کھول دیتا۔
اُسے بہت بعد میں پتا چلا کہ ٹکر کیا ہوتی ہے۔اِتنا بعد میں کہ تب سوال کرنے والا بھی وہ خود تھا اور جواب دینے والا بھی خود:
’’ وہ میری طرف آ تی ہے ، میں اُس کی طرف۔وہ اپنے خوف کو پرے دھکیلتی ہے ، میں اپنے خوف کو۔ یوں دونوں میں ٹکر ہو جاتی ہے۔‘‘
’’ وہ کون ؟ ‘‘
’’ یہی دنیا۔۔ اور کون !‘‘
مڈل کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن سے پاس ہونے پر باپ نے وعدہ پورا کیا اور اُسے سائیکل دلوادی۔ مگر اِس کے لیے دادا کی منظوری بھی ضروری تھی۔ باپ کا خیال تھا کہ سائیکل چلائے گا تو ٹانگوں کی ورزش ہوتی رہے گی اورپائوں کم گھسیں گے۔مگر دادا کہنے لگے کہ ابھی بچہ ہے، کاٹھی پہ ہو گا توپائوں زمین پر نہیں پڑے گا، سڑک پرٹائر پنکچر ہو گیا تو کیا کرے گا، سائیکل گھسیٹ کر کیسے پہنچے گا پنکچر لگوانے۔پھر پنکچر لگانے والے حرامی کو کون نہیں جانتا ، ایک کے دو دو بتاتا ہے۔ کیل نہ بھی ہو تو جادو گر کی طرح آستین سے نکال لاتا ہے ۔ بغلیں کھجاتا جاتا ہے اور سوئیاں نکالتا جاتا ہے۔بس پھر کیا۔پانی میں بلبلے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ دیکھیں جی ایک ، یہ دو ،بس دو نئے اور ایک پرانا، مگر پراناابھی کچھ دن اور نکال جائے گا ۔ میرے ہاتھ کا جو ہوا ۔ شکر کریں سرکار ٹیوب کو زیادہ پھٹر نہیں کیا، ورنہ نئی ڈالنی پڑ جاتی۔۔۔۔
’’ناں بھائی ناں ۔ نویں دسویں تک تو میر ے ساتھ ہی آئے جائے گا۔ آگے کالج میں دیکھیں گے‘‘۔
’’ بائیس کی نہ سہی اٹھارہ کی لے دیں‘‘۔ بہن نے سن رکھا تھا کہ چھوٹی سائیکلیں بھی ملتی ہیں ۔ وہ خود بھی صحن میں چلانا چاہتی تھی۔
’’ رنگ نیلا ہونا چاہیے ۔ہمارے گھر میں نیلی سائیکل نہیں‘‘۔ وہ دل ہی دل میں پیڈل گھمانے لگا۔
’’ خیال کر بیٹا۔چوک سے ایسے نہیں مڑٹے‘‘
’’کل تم گرتے گرتے بچے تھے ۔ اگلی بریک ایمرجنسی کے لیے ہوتی ہے۔ تمھیں پچھلی لگانی چاہیے تھی۔‘‘
’’ لیفٹ ، رائٹ بھی کلیئر نہیں تمھیں‘‘ دادا نے تو جیسے پریڈ ہی شروع کر دی۔ سارے میں ہنسی کے نیلے غبارے اڑنے لگے۔
’’ اور ہاں ابھی دو سال تک نہ کیریر پر کسی کو بٹھانا اور نہ ڈنڈے پر۔۔ سنا تم نے !کہیں گر گئے تو تمھا ری دادی قبر میں سے آ کر مجھے کوسنے دے گی۔ بڑا آیا دادا ۔ نہیں سنبھال سکا نا میری امانت کو! ‘ ‘
تب اُس نے دیکھا کہ صحن میں اُس کے چاروں طرف سب گھیرا بنائے بیٹھے تھے اور اُسے چھ ماہ کا بچہ ہی سمجھ رہے تھے۔ جب ڈھلتی سردیوں کی ایک دوپہر میں دادی اُسے نہلانے کے لیے صحن میں لائی، صحن کے ایک مشرقی اور قدرے کم آمد ورفت والے کونے میں دھوپ کب کی آ چکی تھی، جس کا اندازہ گھڑی سے زیادہ بچے کے گلے میں پڑے ہوئے تعویذ سے ہو رہا تھا جس کی چاندی مہربان حد تک گرم ہو چکی تھی اور لشکارے پر لشکارا مار رہی تھی۔ سر پر چمکتا ہواسورج نیچے دیوار اور فرش کے ساتھ ایک سنہری چوکور بنا رہا تھا۔ جب اِس طرف کسی آنے جانے والے کا سایہ پڑتا ، تو چوکور قطع ہوتی ہوئی تکون بن جاتی ، سایہ اور بڑھتا تو تکون لکیر میں سمٹ آتی ۔ دادی نے چولھے پر کھولتا ہوا پانی ایک بالٹی میں ڈالا۔ بالٹی کو نلکے کے قریب لے جاکر اُس میں ٹھنڈا پانی ملایا۔گرمی کو سردی سے مارا اور سردی کو گرمی سے ۔ جب تاثیر کی گارنٹی مل چکی تونیم گرم پانی کی بالٹی اٹھاکر وہاں رکھی جہاں سردیوں کے دنوں میں وہ ہر ہفتے اُسے نہلایا کرتی تھی ۔ چوکور پر جس جس کا سایہ پڑ رہا تھا سب کو پرے ہٹا دیا۔سورج کو اپنی اوقات یاد آ گئی۔دادی چوکڑی مار کر فرش پر بیٹھ گئی۔پھر دونوں پیروں کا سٹیج بنایا اور ایک ہاتھ سے سٹیج کی پشت بنا دی اوراُسے سٹیج پر بٹھا دیا۔ غسل کے باقی سارے شگن دوسرے ہاتھ کے ساتھ جیسے گن گن کر پورے کرنے لگی ۔
’’ نائیاں ۔ نائیاں۔ نائیاں‘‘
’’ دفع دُور۔۔۔کوئی میرے پٹھان بچے کو نہ دیکھے‘‘۔
دادی نے پانی اوک میں بھر بھر کر اپنے سفید گلاب پر چھڑکناشروع کیا اور ساتھ ہی روئی ایسی نرم انگلیوں سے مساج بھی کرتی رہی۔ سفید گلاب سرخی پکڑنے لگا۔ مگر اُس دن دادی نے دیکھا کہ بچہ نہاتے ہوئے کچھ عجیب حرکتیں کر تا رہا ۔ جب جسم پر پانی پڑتا تو دائیں ٹانگ اٹھا کر مزاحمت کرتا، بائیں کو اٹھاتا تو وہ گر جاتی ، جیسے بے جان ہو گئی ہو۔ یہ مفاہمت تھی یا پھرکیا تھا، اُس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ وہ گھبرا گئی ۔فوراََ اُس نچڑتے ہوئے بالک کو اپنے سر کی گرم چادر میں لپیٹا او ر سینے سے لپٹالیا ۔ پھر کمرے میں لے جاکر اُسے بستر پر ڈال دیا اور جسم کو سکھانے لگ گئی۔ رات وہ سو نہیں سکی۔ اپنی ٹانگیں اُسی طرح اٹھاتی اور گراتی رہی جیسے دن میں پوتے نے کیا تھا کہ دیکھے تو سہی کہیں سب انسان ایک جیسے تو نہیں۔مگر وہ پوری طرح نقل نہ اتار سکی۔صبح سویرے نماز ،پنج سورہ سے فارغ ہوتے ہی صحن میں شور برپا کر دیا ۔
’’ توبہ توبہ۔ ماں کو بھی پتا نہیں چلا کہ ایک ٹانگ۔۔۔۔ ہے ہی نہیں۔۔ ارے سنتے ہو پاشی کے دادا۔ بچے کی ایک ٹانگ۔۔۔ ‘ ‘
’’ میرے پاس تو ہفتے میں ایک بار آتا ہے۔ چھ دن تو ماں کے ساتھ ہی سوتا ہے۔‘‘
’’ اب دیکھو نا۔جسم کو ہاتھ نہیں لگ رہا!‘‘
’’ باری کا بخار تو نہیں ہو گیا !‘‘
’’اتر جائے گا ‘‘ دادا غسل خانے میں سے بولے اور جلدی میں صرف تہبند کے ساتھ ہی باہر نکل آئے۔قمیص وہیں جھولتی رہ گئی۔
تھا تو باری ہی کا موذی مگر، ندیدہ نکلا۔ باری لیتے لیتے تھکا نہیں۔ دو چار دن تو انتظار کیا کہ لال شربت کے ڈراپس گلے میں جانے سے بخار پیچھا چھوڑ دے گا ۔ مگر جب ایسا نہ ہوا تو دادی نے لنگوٹا کس لیا اور چلی بھگانے پوتے کی بلا کو :
’’میں اِسے بھگاتی ہوں یہاں سے۔ دیکھتی ہوں یہ کیسے۔۔۔‘‘
دادی چپل اتارکر چارپائی کے نیچے فرش کو زور زور سے پیٹتی جاتی ، جیسے وہاں چھپے ہوئے بخار کو ڈرادھمکا کربھگا رہی ہو۔ وہ کمرے کے فرش کو پیٹٹی ہوئی، راہداری پر جوتا برساتی، باہر کے دروازے تک آتی ا ور اُسی چپلی سے باہر کی تھڑی پر تین چار زور زور کے دھماکے کرتی ہوئی دراوازہ بند کر لیتی۔
’’ دفع۔۔ دفان ۔۔اب آ کر تو دکھاؤ۔ جاؤ جاؤ ۔ جنگلوں میں جاؤ ، پہاڑوں پر جاؤ ‘‘۔وہ چٹخنی چڑھاتی اور جوتا دھو کر دوبارہ پائوں میں پہن لیتی۔ سمجھتی کہ شہر کی ساری ڈائنوں ، چڑیلوں کو دیس نکالا دے چکی ہے۔
’’خبردار کسی نے دروازہ کھولا تو‘‘ ۔ وہ دیر تک ڈیوڑھی میں کھڑی دروازے اور دیوار کی درزوں میں سے باہر گلی میں دیکھتی رہتی اور کبھی کبھار تو اُن درزوں میں پرانی ٹاکیاں ٹھونس دیتی۔ رخنوں سے بار پا کر اندر آنے والی روشنی کی سیلی شعاعوں کی لمبی لمبی قاشیں ٹکریوں میں ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگتیں ، جس سے ڈیوڑھی میں اندھیرا بڑھنے لگتا ۔ پھر ایک آخری رخنے پر ہاتھ کی تلی چپکا کر پورے زور سے دباتی اور عین دوپہر میں اندھیرا مکمل ہو جاتا۔باہر سے ایسے لگتا جیسے سوارخ کے منہ پر مہندی کا گول دائرہ چسپاں ہو گیا ہو۔ دادی کا جب کبھی ہاتھ رنگنے کو جی کرتا تو ہتھیلی پھیلا کرپوٹا برابر مہندی سے دائرے کا مرکز نکالتی ، جس کے گرد دائرہ خود ہی بن جاتا۔ جب ہاتھ دھوتی تو پورے ہاتھ کا مرکز بھی نکل آتا۔ عنابی ٹکہ، ہاتھ کے وسط میں ابھر آتا تھا۔جب تک ہاتھ دروازے کی درز پر ٹکا رہتا ، لکڑی ایسی سالم دکھائی دیتی جیسے خرادیے نے ابھی ابھی چوکھٹے میں سجائی ہو ۔
مگرمورکھ توجوتے کھاکر بھی مورکھ ہی رہا۔ حریص تھا ہی ایسا۔ پولے پڑتے رہے اور خوش ہوتا رہا۔ دادا اور باپ کچھ کچھ سمجھنے لگے تھے کہ باری کے بخار کی باری طول کیوں پکڑ چکی ہے۔ سمجھ تو شاید وہ اُسی قت گئے تھے جب داداکیل پر جھولتی ہوئی قمیص کو چھوڑ کر غسل خانے سے باہر کی طرف بھاگے تھے ، مگر اب اُنھیں یاد بھی آ چکا تھا کہ خاندان کی ہر ساتویں پیڑھی میں ایسا ہونا ہے ، نہ ہو تو باقی سب پر بھاری پڑتا ہے۔ اُنکے سامنے شجرے کا دفتر کھلا تھا اور وہ پچھلی چھ پشتوں سے مکالمہ کر چکے تھے:’’ ساری سردیاں بائیں ٹانگ کو کمبل میں لپیٹ کر رکھنا پڑے گا ۔ ٹھیک ہو جائے گا۔ یاد ہے مرزا صاحب کی ثمینہ بھی تو ٹھیک ہو گئی تھی‘‘ ۔ دادا نے آنسوئوں پر قابو پاتے ہوئے بیٹے کا کاندھا تھپتھپایا۔ پھر وہ اذان کے بغیر ہی نماز کی نیت باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ پہلی بار وہ ملک ٹوٹنے پر ایسے کھڑے ہوئے تھے۔ چبوتروں پر پڑتی ہوئی دھوپ چھائوں کا اندزاہ کیے بغیر محراب میں جا کر قیام کرنے کا یہ دوسرا موقع تھا۔باپ اُن کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ التحیات ُ للہ ِ کی لام پر پہلی بار ہکلائے اور پھر ہر تشہد میں لام پر لکنت کا سامنا رہا۔ جیسے اُن کا ویسپا پہلی کک پر کبھی سٹارٹ نہیں ہوا ، ویسے ہی لام نے بھی پہلی پڑھت میں پکڑائی نہ دی ۔ وہ اِسی لکنت کو نوکِ زبان پر رکھے رکھے رخصت ہوئے ، مگر آج تک کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ایک ہی حرف پر ہکلانے کا مرض موروثی تھا یا کوئی مجبوری تھی ۔
’’یہ لو سرسوں کا تیل ۔ اور مالش کرتی رہو رات کو سونے سے پہلے۔ خون گردش میں آئے گا تو ٹانگ ماس پکڑے گی‘‘
سرسوںنے ماس نہیں پکڑا تو حرمت والے زیتون کو آزمایا گیا۔ ’یہ رکھ لو ۔ دم کیاہوا ہے۔ سوا لاکھ بار آیتِ کریمہ پڑھی گئی ہے اِس پر۔ انگلی سے چھو چھو کر روازنہ رات کو سات قطرے ٹانگ پر ڈال کر اُسی انگلی سے ماس میں جذب کرنے ہیں‘۔سات قطرے تو جیسے چاروں دشاؤں کی نظروں میں آ گئے۔ ایک ٹپکا ، ایک لپکا، دوٹپکے دو لپکے ۔ سر پر سوار ہدایت کاروں کے مانند کہ فلم بجٹ کے اندر اندر رہے اور باکس آفس پر سپر ہٹ بھی ہو ۔ ’دیکھنا بی بی۔ یہ پڑھائی والا تیل ہے ۔ کوئی قطرہ بھی زمین پر نہ گرے۔ اِسے کوئی اور نہ استعمال کرے۔ الٹا پڑے گا‘ وہ پیڈل گھماتے ہوئے ذرا رُکا اور پھر ہمیشہ کے لیے چل پڑا۔ اُسے صحن میں تین پہیوں والے ریڑھے کی جگہ سائیکل کھڑی دکھائی دے چکی تھی۔ شہر میں وہی کچھ ہورہا تھا ، جس کا اندیشہ تھا۔ فٹ پاتھ کو سرکا کر سڑک کا نیا وسط نکا لا جا رہا تھا۔ مردہ خانے کی عمارت کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔’مردہ خانہ ہے کہ برزخ ہے؟‘ ’اعراف کہو بھائی،اعراف!‘ ’اب دیکھیں کون اِدھر گرتا ہے،کون اُدھر!‘ ’اپنی اپنی دوڑ ہے۔جہاں بھی لے جاکر پر پٹخ دے!‘ ’چاہے تو بازار کے دروازے تک لے جائے۔آئیے آیئے اندر نیکیاں بک رہی ہیں ۔ آیئے تو‘ ’ہاں ہاں جیسے ترازو کے نیچے مقناطیس لگا ہے۔۔ کم مال زیادہ۔ زیادہ بہت زیادہ !‘ وہ مرکز کی تلاش میں رہا۔ ’مرکز کے دائیں بائیں، اوپر نیچے برابر کا وزن ہوتا ہے۔ تمھیں نہیں ملے گا۔ تم تو خود برابر نہیں‘ پھر وہ نیفے سے موری تک اور واپس موری سے نیفے تک بالشتیں ماپنے لگتا۔ ’تین بالشتیں،دو چپے، ایک انگل،اِدھر بھی،اُدھر بھی‘۔ ’شلوار،پاجامے کے دونوں پٹوں کی لمبائی برابر ہونے سے، ٹانگیں برابر تھوڑی ہو جاتی ہیں۔ یہ تو ماس کا معاملہ ہے، لباس کا نہیں!‘وقت نے ثابت کیا کہ ایسے چھوٹے شہروں کی رات لفٹی جیسے لوگوں کے لیے بنی تھی۔ وہ جو اُس جیسے نہیں تھے،اُ نھیں توعشا کا سلام پھیرتے ہی نیند آنے لگتی۔ ایسے لوگوں کو آسمان دیکھے ہوئے معلوم نہیں کتنا کتنا وقت گرز جاتا،ایک چاند کے بعد دوسرا چاند بھی نظر آ جاتا،مگر کیا مجال کہ عید شبرات کے دنوں میں بھی اُنھیں سر پر تنی ہوئی نیلی چارد سے کوئی کام پڑتا ہو۔ پورے کا پوار شہر ہی بصری رویت کو بھول چکا اور سمعی رویت کا عادی ہوتا جارہا تھا۔کبھی رات کو اُوپر دیکھنے کی نوبت آ بھی جاتی تو اُس وقت جب چھت پر بارش گرنے لگتی،اچھا بھلا تاروں بھرا آسمان ہوتا،مگر آن کی آن میں اوجھل ہو جاتا۔ کچھ دیر تو سر سے پاؤں تک چادر تانے ایک ایک کنی کو گنتے رہتے،اب رُکی کہ اب رُکی۔مگر جب بات حد سے بڑھنے لگتی تو بستر چھوڑ دیتے اور نیند سے مندھے ہوئے دیدے سیدھے اوپر کو اُٹھ جاتے۔ وہ چارپائیاں پشت پر ڈال کر ممٹیوں کی طرف دوڑ لگاتے۔ جن کی ممٹیاں نہ ہوتیں وہ مرغیوں کے کھڈے میں گھس جاتے یا کبوتروں کی چھتری کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوجاتے ۔مرغیاں اور کبوتر ایک لمحے کو آنکھیں کھولتے اور پھر میچ لیتے،جیسے کہہ رہے ہوں کہ مہاجروں کو اپنے حصّے میں سے آدھی چھت دے دی ہے۔جانور،انسانوں کو اختیار دیتے کہ یہ لوگ اپنی اپنی چھتوں کے صاف ہونے تک یہیں سو جائیں اور اُنھیں نئے بستروں پر پھر سے نیند آنے لگتی۔ ساون بھادوں کی یہی بات اُنھیں پسند نہیں تھی۔ دن کے وقت مینہ کی چھماچھم میں جتنے آم چاہو کھلادو،کچھ نہیں کہتے تھے۔ بس ٹونٹی کے پاس بیٹھے لنگوٹا کیے چپڑ چپڑ کھاتے ہی جاتے تھے۔ اب دیکھا جائے تو اُس جیسے تھے ہی کتنے ؟
وہ تھا اور بس وہ تھا۔ بولتا رہتا کہ کم از کم دو تو شمار ہوں۔ دو ہو جاتے تو دو سو،دو ہزار،یا دو لاکھ تو پھر ہو ہی جاتے۔ لفٹی کے لیے چٹکی بجاتے میں ایسا مجمع لگا لینا مشکل تھوڑی تھا۔وہیں دادی بھی آ جاتی۔لفٹی جب ہجوم کی ٹہل سیوا میں گھٹنوں گھٹنوں تک جُٹ جاتا تو وہ ہاتھ میں دھاگا لیے اُوپر سے نیچے اُترآتی اور اُس کی دونوں ٹانگوں کی پیمائش کرتی ہوئی واپس اُوپر چلی جاتی۔ لفٹی کو ذرا سی کھجلی ہوتی اور بس:
’’ بہو تم نے مالش ٹھیک سے نہیں کی !‘‘
’’ ساتویں دن سے فرق پڑنا شروع ہوتا ہے۔ اِسے کیوں نہیں پڑ رہا!‘‘ ’’پنج سورہ میں مور کے پر وں نے پڑے پڑے اور پرزے نکال لیے ہیں۔ بعضے تو پورے کے پورے مور بن گئے ہیں۔ یہ تو تیرے میرے پنڈے کا پر ہے۔ پھر کیوں۔۔ مور نہیں بنا ؟ ‘‘
’’ تیل کی بے ادبی تو نہیں ہو رہی ۔۔۔۔ خیال کروخیال! یوں ہی تو اِس کی قسم نہیں کھائی گئی۔ کوئی بات تو ہے ! ‘ ‘
’’ میں گئی تھی ۔ دیکھ آئی ہوں۔ گھر میں جگہ جگہ تیل کے نشان تھے۔ ٹانگ کا حصّہ تھا ، جو زمین نے چوس لیا !‘‘
جب وہ اطمینان کر لیتا کہ اُسے کوئی دیکھ تو نہیں رہا ، بیچ سڑک کے دونوں بازوؤں کو دائیں بائیں پھیلا کر یوں اکڑا لیتاکہ دھڑ اگر نکال بھی لیں تو زمین کے متوازی تنی گئی رسّی یونہی تنی رہتی اور اُس میں کوئی جھول نہ پڑتا۔۔۔ یوں جیسے بیچ میں کبھی کچھ تھا ہی نہیں ۔ دونوں بازو پول پر ٹنگی لالٹین کی روشنی میں زمین پر دو کامزید اضافہ کر دیتے۔ بس یہیں سے آبادی بڑھتے بڑھتے بے قابو ہونے لگتی۔وہ تصویر کو اور وسعت دیتاتو اُس کے ایک ہاتھ کی بڑی انگلی ایک طرف کی دیوار سے اور دوسرے ہاتھ کی دوسری جانب کی دیوار سے مس ہونے لگتی۔اُدھر صحن کی دیوار سے لگی سائیکل کے دونوں پہیے حرکت میں آجاتے ۔ اگلے پچھلے ٹا ئروں میں تاروں کا تانا بانا بگڑنے لگتا اور دونوں مداروں میں دھند اور دھندلکے کی چادریں بچھنے لگتیں ، جیسے لوہا اب لوہار کے قبضے سے نکل کر خلاباز کے ہاتھ میں آ گیا ہو ، جو دُور کھڑا ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اُسے اڑا رہا ہو۔ پیڈل پر پیڈل گھومتا رہتا اور ایکسل کا لٹو گھمر گھمر ایک ہی نقطے کو چکر دیتا ہواکہاں سے کہاں پہنچ جاتا۔ اُس کا اپنا درمیان ، سڑک کا درمیان ، شہر کا درمیان سب الگ الگ دیکھ کر دادی پھر آسمان کی سیڑھیاں اترآتی اور اُسے بائیں ٹانگ پر چٹکی کاٹ کر پُھر سے اُڑ جاتی۔ ’اماں اماں ، دادی نے پھر بھائی کی ٹانگ میں چھلاچبھو دیا!‘ ’بھلا بواسیر کبھی چھلوں سے بھی گئی ہے۔ موقے تو کٹوانے ہی پڑتے ہیں۔‘وہ ہاتھ بڑھا تاکہ کسی طرح سے آسمانی فاختہ کو پکڑ سکے۔ اُس کی ایڑیاں اوپر کو اٹھتیں۔ایک کا زمین کے ساتھ عمود کم اور ایک کا زیادہ ہوتا،اب جسے ماپے بغیر بھی وہ بتا سکتا تھاکہ کم ،کتنا کم ہےاور زیادہ کتنا زیادہ۔ ’’کون کم،کون زیادہ؟‘ ’خلق کم،خدا زیادہ!خدا کم،خلق زیادہ‘‘۔ اپنے سوال کے یہی دو جواب بن پڑتے۔ فاختہ کے سکڑ سکڑ کر پھیلتے اور پھیل پھیل کر سکڑتے اور پھڑپھڑاتے ہوئے پروں سے گرد وپیش میں ایک نحیف خفیف جنبش پیدا ہوتی جس کا ارتعاش اُس کی انگلیوں کے خلا میں سے ہوتا ہوا قمیص کا کف پکڑ تا اور چھوڑ دیتا،پھر پکڑتا، پھر چھوڑ دیتایوں جیسے کسی مرتعش پُل کے ارتعاش کا حیطہ پھیلتا سکڑتا ہو اور شور انگیز دھمک دھمال میں خاموشی کے وقفے دریافت کرتاآگے بڑھتا جاتا ہو۔اُوپر کو اٹھا ہوا بانہوں کا یہ لپکا بس ثانیہ ، دو ثانیہ کا ہوتا۔ثانیہ جانے کا،ثانیہ آنے کا ۔کچھ ہی دیر میں دونوں پائوں دھڑام سے واپس زمین پر آ گرتے۔ پہلے دایاں ، پھر بایاں ۔ دایاں آہستہ سے اور بایاں ذرا تیزی سے۔ زمین ایک ہی وجود سے جڑے ہوئے پیروں کے لیے الگ الگ کشش رکھتی تھی،صاحبِ وجود کے طرفین سے جدا جدا پیش آتی تھی۔ فاختہ اپنے مندری چھلے سمیت جہاز پر سوار ہو کر پرواز کے مزے لیتی رہی ۔ اُوپر سے نیچے اور نیچے سے اُوپر۔ ’’سب کہتے ہیں چھلا چبھو گئی۔ چھلا چبھو گئی۔۔‘‘ ’’جان بوجھ کر تھوڑی چبھوتی ہے! ‘‘ ’’کہاں سے چلتی ہے بے چاری اور ملنے آتی ہے۔ اور کوئی کیوں نہیں آتا!‘‘ ’’ہر کسی کو تو یہاں کا پتا بھی یاد نہیں۔۔۔اُسے تو کوئی ضلع تحصیل کا نقشہ دے کر روانہ کرتا ہوگا۔‘‘ ’’جبھی تو بھولتی نہیں ڈاکخانے کو۔ لیٹر بکس ایسے یاد رکھتی ہے جیسے رخصتی کا لال جوڑا ہو۔‘‘ وہ دن دادی کا ساتواں دن ہی بنتا تھا جب وقت ثانیہ ثانیہ اکٹھا ہو کر ستّر ضرب ستّر کا اچھا خاصا دورانیہ بن چکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گم شدہ مرکز د کھائی دینا شروع ہوگیا تھا۔ اُس رات لفٹی معمول کی مشقیں مکمل کرکے زیرِ تعمیر فٹ پاتھ پر چت پڑا تھا۔ لالٹین کی روشنی دوبازؤں کے اُوپر اُسی طرح سے جھول رہی تھی ، مگر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اُس وقت بازؤں کے نیچے کیا کیا کچھ بن بگڑ رہا تھا۔ اُس کے سر پر دن بھر کی تھکی ہاری کرین کا دیو قامت بوم بھی سایہ کیے ہوئے سستا رہاتھا، جیسے زمین سے اوپراٹھتے ہوئے کسی کج ادا نے ترچھی اڑان بھری ہو اور پھر ہانپتے کانپتے ہوئے اُوپر ہی اُوپر سفر روک دیا ہو۔دم سادھے ہوئے لوہے کا بُت بٹن دبانے والے کے انتظار میں تھا کہ وہ کب اُسے نیچے بلائے اور سولی پر ٹنگی ہوئی جان کو کچھ چین پڑے۔ ایسے اندھیرے میں بھی پھانسی گھاٹ پر خاصا ہجوم جمع تھا اور ہر ایک کو تشویش تھی کہ اگر پھانسی ہو چکی ہے تو موت کی تصدیق کیوں نہیں ہو رہی! تشویش حد سے بڑھی تو شکایت بن گئی۔ ایک طرف پوسٹ مارٹم والے کو گھر جانے کی جلدی تھی اور دوسری طرف گورکن کو اپنی بِل، بکھّر کی پڑی تھی ۔ ایک ہی کھولی کے اندر سے اتنی مٹی نکل آئی تھی کہ چھ چھ، سات سات گھروں کی دہلیزوں تک اڑتی پھر رہی تھی۔ ایسے موقعوں پر ہوا کو نہ جانے کون جا بتاتا ہے کہ آؤ آؤ،تمھارے کرنے کا کام ہے،تمھیں سنبھالو۔ وہ آئی اور اُس کی شلوار کے دونوں پائینچوں سے ہوتی ہوئی اندر کی طرف گھس گئی: دائیں میں کم،بائیں میں زیادہ! ’د فع دور۔کوئی جھانکا جھونکی نہ کرے۔’دیدے گاڑے ہوئے اُوپر کیا گر رہے ہو،پرے پرے ہٹ جاؤ!‘ ’سنا نہیں،چار آنے میں یہی کچھ آتا تھا‘ اور تم،کیا بغیر ٹکٹ کے منہ اٹھائے شو میں گھس رہے ہو ؟‘ ’بھاگو، اب یہاں میں رہوں گی۔ صرف میں‘ کپڑا برابر برابر پھول چکا۔اُس وقت سرھانے کھڑا کاتب اگرکچھ لکھنے کو جھکتا،زیادہ اِدھر اُدھر کی نہ سہی،کم از کم اپنے ہاں کے دو بول تو لکھتا ہی:’قضیہ۔۔فیصل!‘ اور سر اٹھا لیتا!

Related posts

Leave a Comment