استاد قمر جلالوی ۔۔۔ یہاں تنگی ٔقفس ہے، وہاں فکرِ آشیانہ

یہاں تنگی ٔقفس ہے، وہاں فکرِ آشیانہ
نہ یہاں مرا ٹھکانہ، نہ وہاں مرا ٹھکانہ
 
مجھے یاد ہے ابھی تک ترے جور کا فسانہ
جو میں راز فاش کر دوں تجھے کیا کہے زمانہ
 
نہ وہ پھول ہیں چمن میں نہ وہ شاخِ آشیانہ
فقط ایک برق چمکی کہ بدل گیا زمانہ
 
یہ رقیب اور تم سے رہ و رسمِ دوستانہ
ابھی جس ہوا میں تم ہو وہ بدل گیا زمانہ
 
مرے سامنے چمن کا نہ فسانہ چھیڑ، ہمدم!
مجھے یاد آ نہ جائے کہیں اپنا آشیانہ
 
کسی سر نگوں سی ڈالی پہ رکھیں گے چار تنکے
نہ بلند شاخ ہو گی نہ جلے گا آشیانہ
 
نہ سنا سکے مسلسل غمِ دوریِ وطن کو
کبھی رو لئے گھڑی بھر کبھی کہہ دیا فسانہ
 
مرے روٹھ جانے والے تجھے یوں منا رہا ہوں
کہ قضا کے واسطے بھی کوئی چاہئیے بہانہ
 
کہیں مےکشوں سے ساقی نہ نگاہ پھیر لینا
کہ انھیں کے دم سے قائم ہے ترا شراب خانہ
 
قمر اپنے داغِ دل کی وہ کہانی میں نے چھیڑی
کہ سنا کیے ستارے مرا رات بھر فسانہ

Related posts

Leave a Comment