اسد رضا سحر ۔۔۔ جنھیں یہ لوگ جگنو کہہ رہے ہیں

جنھیں یہ لوگ جگنو کہہ رہے ہیں
فلک سے ٹوٹ کر تارے گرے ہیں

تری آنکھوں سے خود کو دیکھنا ہے
مرے دل میں بھی کچھ منظر پڑے ہیں

کوئی منظر نہیں درکار اِن کو
غذا آنکھوں کی بس یہ رتجگے ہیں

تری باتیں مضامیں ہیں غزل کے
ترے عارض غزل کے قافیے ہیں

مری تاریک دنیا میں ابھی تک
ترے روشن دیے کے تذکرے ہیں

یہی لکھنا مرے کوچے کے بارے
کہیں پتھر کہیں پر آئنے ہیں

نکل کر آنکھ کے پنجروں سے اکثر
فصیلِ شب پہ منظر ناچتے ہیں

ابھی سے جانے کی تیاریاں ہیں
گھڑی پر تو ابھی بارہ بجے ہیں

Related posts

Leave a Comment