شاذیہ اکبر ۔۔۔ دو غزلیں

ذرا سی آنچ بڑھا، دل جلا، یقیں رکھ دے
جہاں ہے عشق وہاں روحِ آتشیں رکھ دے

تو جانتی ہے کہاں ہے ترا خیالِ وجود
انا بچھا دے وہیں پر وہیں جبیں رکھ دے

ارادہ باندھ سفر کا یقیں کی چادر میں
دو ایک خواب کسی تہ میں بھی کہیں رکھ دے

زمیں کی چیز ہیں سب احتیاج کی باتیں
ترا سفر ہے جدا زادِ رہ یہیں رکھ دے

قدم قدم پہ سرائے ملے گی رکنا نہیں
شب وصال کی حسرت دلِ حزیں رکھ دے

یہ آسمان شناسا ہے میرا صدیوں سے
تجھے لپیٹ کے رکھنی ہے تو زمیں رکھ دے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اِدھر تھے ہم تو اُدھر تم تھے ، درمیان گلاب
سنا رہے تھے کہانی وہ خوش بیان گلاب

گزر رہی تھیں بہاریں اسی کے سائے سے
بنا ہوا تھا سرِ باغ ، سائبان، گلاب

زیادہ دور نہ جاتے کبھی کناروں سے
وہ تیرتے ہوے لہروں کی آن بان ، گلاب

ہمارے ساتھ مہکتی ہوا ہے اب بھی گواہ
تری مہک کے ابھی تک ہیں ترجمان گلاب

خزاں کے دن ہیں تو کچھ اور یاد آتے ہیں
گزرنے والے وہ موسم ، وہ بے نشان گلاب

سبھی کو دیکھنا پڑتا ہے شازیہ اکبر
وہ ایک روز کہ برسائے آسمان ، گلاب

Related posts

Leave a Comment