افتخار شاہد ۔۔۔ منظر نیا تو کوئی دکھایا نہیں گیا

منظر نیا تو کوئی دکھایا نہیں گیا
اچھا ہوا کہ پھر سے رلایا نہیں گیا

یاروں سے ضبطِ حال کے تالے نہیں کھلے
ہم سے بھی ساز دل کا بجایا نہیں گیا

ترکِ تعلقات کی قینچی تو چل گئی
لیکن وہ شخص دل سے بھلایا نہیں گیا

شانے سے اس کا ہاتھ بھی میں نے ہٹا دیا
یہ بوجھ آج مجھ سے اٹھایا نہیں گیا

ڈستی رہی نظر کو چراغوں کی روشنی
دل کا دیا کسی سے جلایا نہیں گیا

شاہد وہ بادبانِ سماعت کھلے تو تھے
ہم سے ہی اپنا حال سنایا نہیں گیا

Related posts

Leave a Comment