شاذیہ مفتی ۔۔۔ الائو

الائو
۔۔۔۔
دھند کی اوڑھنی کو سرکاتی
دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی
گاہے رکتی ہے، گاہے چلتی ہے
رات اپنے کسی سفر پر ہے
سوکھی، گیلی سلگتی سانسوں سے
ناگہاں ایک شعلہ اٹھتا ہے
جیسے وہ شب کے شامیانے میں
کوئی گہرا شگاف ڈالے گا
شعلگی — نارسائی کی سوتن
بجھتے بجھتے بھڑکنے لگتی ہے
سرد مہری کی جامنی چادر
خواب کے تن پہ کسمساتی ہے
آرزو — بانسری کی مدّھم لَے
دل پہ چپکے سے پانو دھرتی ہے
دفعتاً دھیان کے جھروکے سے
ایک کوندا لپک دکھاتا ہے
کاش یہ شبنمی خمار سی آنچ
دُ ھند کی آنکھ نور سے بھر دے
رات کی عرفیت بدل جائے
پھول جھڑنے لگیں ستاروں سے
آگ ٹپکے رگِ محت سے
وقفے وقفے سے لکڑیاں ڈالیں
اس اَلائو میں آشنائی کی
اور پھر دل کی آنکھ سے دونوں
آج اک دوسرے کا چہرہ پڑھیں

Related posts

Leave a Comment