شاذیہ مفتی ۔۔۔ الائو

الائو ۔۔۔۔ دھند کی اوڑھنی کو سرکاتی دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی گاہے رکتی ہے، گاہے چلتی ہے رات اپنے کسی سفر پر ہے سوکھی، گیلی سلگتی سانسوں سے ناگہاں ایک شعلہ اٹھتا ہے جیسے وہ شب کے شامیانے میں کوئی گہرا شگاف ڈالے گا شعلگی — نارسائی کی سوتن بجھتے بجھتے بھڑکنے لگتی ہے سرد مہری کی جامنی چادر خواب کے تن پہ کسمساتی ہے آرزو — بانسری کی مدّھم لَے دل پہ چپکے سے پانو دھرتی ہے دفعتاً دھیان کے جھروکے سے ایک کوندا لپک دکھاتا ہے کاش…

Read More