آفتاب محمود شمس ۔۔۔ جو دل کی شورشوں کا اب کے حساب کرتے

جو دل کی شورشوں کا اب کے حساب کرتے
خود کو تباہ کرتے ، تجھ کو خراب کرتے

مجھ کو خدا جو دیتا تخلیق کا ہنر تو
دریا بناتے تجھ کو خود کو سراب کرتے

کیوں اب دکھائے مجھ کو مر کر جناب چہرہ
مجھ سے تھا پردہ ان کا ، اب بھی حجاب کرتے

نامہ مرا گیا ہے گزرے ہیں اب کے برسوں
قسمت نہیں تھی میری حاصل جواب کرتے

دل کی گلی میں آ کر کرتے سوال ہم سے
ہم اُس سوال ہی کو، اُس کا جواب کرتے

جو رخ پہ اس کے پھیلا ہے چاندنی سا سایہ
مدت گزر گئی ہے ، اس کو نقاب کرتے

Related posts

Leave a Comment