حکیم خان حکیم ۔۔۔ دھوپ ہے سائباں نہیں ملتا

دھوپ ہے سائباں نہیں ملتا
سر پہ اب آسماں نہیں ملتا

یوں مقفل ہیں سب کے دروازے
کوئی خالی مکاں نہیں ملتا

شہر تو ہے بہت بڑا لیکن
زندگی کا نشاں نہیں ملتا

تو مرے ساتھ چل نہیں سکتا
مجھ سے تیرا گماں نہیں ملتا

پھول بکھرے ہوئے ہیں گلشن میں
باغ میں باغباں نہیں ملتا

اب تو آنکھوں میں دھول اُڑتی ہے
تیرا نام و نشاں نہیں ملتا

لوٹ آیا ہوں آسماں سے میں
مجھ کو میرا جہاں نہیں ملتا

سوچیے تو نظر نہیں آتا
ڈھونڈیے تو کہاں نہیں ملتا

Related posts

Leave a Comment