اکرم ناصر ۔۔۔ ذرا دیکھو تم اس کی خوش گمانی، ڈھونڈتا پھرتا

ذرا دیکھو تم اس کی خوش گمانی، ڈھونڈتا پھرتا
نہیں جس کا کوئی اس کا ہے ثانی ، ڈھونڈتا پھرتا

میں بچپن ڈھونڈنے گاؤں گیا تھا جب، وہاں اک شخص
ملا مجھ کو‘ بڑھاپے میں جوانی ڈھونڈتا پھرتا

وہ بوڑھا جس کو سارے لوگ دیوانہ سمجھتے تھے
تھا اپنے قہقہے‘ شعلہ بیانی ڈھونڈتا پھرتا

عجب منظر تھا، جب اک شخص کل دریا کنارے پر
پیالہ ہاتھ میں لے کر تھا پانی ڈھونڈتا پھرتا

ملا کل مجھ کو رستے میں، وہی چنگھاڑتا دریا
زمیں پہ رینگتا پھرتا‘ روانی ڈھونڈتا پھرتا

Related posts

Leave a Comment