جواد احمد راسخ ۔۔۔ اے چشمِ زدن! تیرا سفر ہو کے رہے گا

اے چشمِ زدن! تیرا سفر ہو کے رہے گا
دل آبلہ پا برق و شرر ہو کے رہے گا

محروم محبت سے ہے دل سوختہ ساماں
اب کس کی محبت کا اثر ہو کے رہے گا

پھر شوقِ تمنا لیے جاتا ہے اُسی سمت
دل پھر سے خجل چاک جگر ہو کے رہے گا

پھرتا ہوں لیے دہر میں سورج کی طرح دل
گزرے گی یہ شب نورِ سحر ہو کے رہے گا

گلشن میں جو اپنوں ہی سے بیگانہ ہوا ہو
وہ لالہ کبھی گردِ سفر ہو کے رہے گا

کہتا ہے غزل اپنے ہی انداز میں راسخ
یہ چرچا مرا ہر سو مگر ہو کے رہے گا

Related posts

Leave a Comment