طلعت شبیر ۔۔۔ پھر اُفق پر دل جڑا تھا شام سے

پھر اُفق پر دل جڑا تھا شام سے
اور میں تنہا کھڑا تھا شام سے

آرزو مفلس کی یوں پھر سو گئی
خواب بھی اوندھا پڑا تھا شام سے

ڈوبتا سورج، جدائی آ پڑی!
وقت میرا پھر کڑا تھا شام سے

قافلہ شبیر کا گزرا ہے کیا؟
پھر کوئی خیمہ پڑا تھا شام سے

رات بھی مغموم ہوتی جائے ہے
کیا فسانہ پھر گھڑا تھا شام سے

میں ہوں داعی روشنی کا اس لیے
یاد ہے مجھ کو لڑا تھا شام سے

ہجرتوں کے سارے منظر کھو گئے
ایک منظر یوں پڑا تھا شام سے

Related posts

Leave a Comment