حنیف ترین ۔۔۔ اس کے گلابی ہونٹ تو رس میں بسے لگے

اس کے گلابی ہونٹ تو رس میں بسے لگے
لیکن بدن کے ذائقے بے کیف سے لگے

ٹوٹے قدم قدم پہ جو اپنی لچک کے ساتھ
وہ دلدلوں میں ذات کی مجھ کو پھنسے لگے

تمثیل بن گئے ہیں سمندر کی جھاگ کی
صحرائے غم کی راکھ میں جو بھی دھنسے لگے

جن کا یقین راہِ سکوں کی اساس ہے
وہ بھی گمان دشت میں مجھ کو پھنسے لگے

ہم لے کے بے امانی کو جنگل میں آ گئے
دل کو جو شہر ِخوباں میں کچھ وسوسے لگے

Related posts

Leave a Comment