بانی ۔۔۔۔ ذرا تو دیکھو کہ کس حال میں ہیں میرے رقیب

ذرا تو دیکھو کہ کس حال میں ہیں میرے رقیب
کہ اب نگاہ نہ ڈالو گے تم اُدھر بھی کیا؟
جواب دِہ نہ ہوئے ہم کہیں بھی تیرے بعد
کہ سچ تو یہ ہے ہمیں تھا کسی کا ڈر بھی کیا
تمام سلسلسے ان گیسوؤں کے ساتھ گئے
ردائے ابر بھی کیا، سایۂ شجر بھی کیا!
جھلستی خاک پہ تنہا پڑا ہے برگِ امید
ہوا کا اس لُٹے رستے سے اب گزر بھی کیا!
کھلے فراغ سے اک روز ہم سے آ مل بیٹھ
کبھی کبھی کی ملاقاتِ مختصر بھی کیا!
عجیب گھور سیاہی میں گم کھڑا ہوں میں
برونِ در بھی یہاں کیا، درونِ در بھی کیا!
اٹھائی خود ہی یہ دیوار خود نہ پھاند سکے
وہ پہلی جست بھی کیا، کوششِ دگر بھی کیا!
کسی عجیب سی دھُن میں اداس پھرتا ہوں
مرے لیے یہ تماشائے رہگزر بھی کیا!
ہمارے آگے تو یوں بھی نہ تھے نشانِ راہ
ہوا نے چاٹ لی گردِ پسِ سفر بھی کیا؟
میں ہوں عجیب سی محرومیوں میں گم اس وقت
کہ مجھ پہ تیری محبّت بھی کیا نظر بھی کیا!
یہ تم نے کس کے لیے شہر چھوڑا اے بانی
کہ اب نہ لوٹ کے آؤ گے اپنے گھر بھی کیا؟

Related posts

Leave a Comment