خالد علیم ۔۔۔ نمودِ برگ پہ زردی، زمین گیلی ہے

نمودِ برگ پہ زردی، زمین گیلی ہے
درختِ سبز نے دریا کی پیاس پی لی ہے

تری نگاہ سے گرادب آشنا ہو جائے
اسی لیے تو سمندر کی آنکھ نیلی ہے

ستارے ٹوٹ رہے ہیں ہماری قسمت کے
سو لگ رہا ہے گرفت آسماں کی ڈھیلی ہے

حصار میں کہیں لے لے نہ پھر دل و جاں کو
تمھاری یاد کی خوشبو بڑی رسیلی ہے

اٹھی جو سینے سے، ہونٹوں میں دب گئی آواز
یہ کس طلسم نے میری زبان کیلی ہے

تو دل کی آنکھ سے دیکھے گا کیا زمانے کو
تری نظر نے چراغوں سے روشنی لی ہے

چلو یہ رات کٹی، کیا ہُوا اگر خالدؔ
نگارِ صبح کی رنگت ذرا سی پیلی ہے

Related posts

Leave a Comment